محمد بن الجدان کا مشورہ اورگورو آریہ کا طنز

پیہم کوششوں کے باوجود سعودی عرب سے اس بار مالی امداد کے امکانات معدوم ہو تے جا رہے ہیں ۔سعودی عرب کی طرف سے اب براہ راست مالی مدد کرنے سے معذرت کی خبریں عام ہیں ۔جن کے مطابق سعودی حکام نے کہا ہے کہ ڈیپازٹس کی مدت بڑھا چکے ہیں تیل اور دیگر سہولتیں دے رہے ہیں اب پاکستان کو خود اپنے ہاں اصلاحات کرنا ہوں گی ۔ سعوی وزیر خزانہ محمد الجدعان کے حوالے سے یہ بھی کہا گیاہے کہ سعودی عرب نے براہ راست ڈیپازٹس اور گرانٹس کی اپنی معاشی پالیسی بدل دی ہے اور اپنے لوگوں پر ٹیکس لگائے جارہے ہیںاس لئے پاکستان بھی معاشی اصلاحات کرے۔اس وقت پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر کا جو معمولی سا بھرم قائم ہے اور پاکستانی معیشت کی جو اکھڑی اکھڑی سانسیں چل رہی ہیں اس میں سعودی عرب کے ڈیپازٹس کا حصہ بھی ہے ۔چین متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کی رقم خزانے سے نکال لی جائے تو باقی کچھ نہیں بچتا ۔سعودی عرب نے پاکستان کو جو مشورہ دیا لمحہ فکریہ ہے ۔یہ اس ملک کی حالت ہے کہ جس میں ایک مراعات یافتہ طبقہ پوری قوت سے زندگی کا لطف لے رہا ہے ۔جس میں سرمایہ داروں کی ایک کلاس ایسی بھی وجود میں آچکی ہے جو اس غریب ملک کے عوام کے ٹیکسوں کے پیسوں کو بیرون ملک منتقل کرکے جائیدادوں کے وسیع سلسلے کی مالک بن بیٹھی ہے ۔ملک کنگال ہے اور اس کے حکمران طبقات خوش حال ہیں۔ اس کے سیاست دان ،بیوروکریٹ ریٹائرڈ فوجی اور سول حکام بیرونی دنیا میں اربوں کھربوں کی جائیدادوں کے مالک بن بیٹھے ہے اس کے باوجود کوئی بھی ملک کو اس حال تک پہنچانے کی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہیں ۔سوشل میڈیا پر اپنی تیرہ بختی کا ماتم کرنے والوں کا یہ جملہ بہت معنی خیز اور فکر انگیز ہے کہ آدھا ملک بنگلہ دیش بن گیا اور آدھا کنگلا دیش بن کر رہ گیا ہے ۔یوں لگتا ہے کہ مریخ سے کوئی مخلوق یا یاجوج ماجوج کا کوئی غول ملک میں اچانک داخل ہوا اور اس کے خزانوں اور وسائل کو چاٹ کر چلا گیا ۔جس کے نتیجے میں پاکستان کی آج یہ حالت ہوئی ہے کہ اس کے پاس جدید اسلحہ وسائل آبادی معدنی دولت ،پانی سب کچھ موجود ہے مگر قومی خزانہ خالی ہے ۔انتظار اس بات کا ہے کہ کوئی مخیر ملک آئے اور اس خزانے میں کچھ اشرفیوں کی خیرات ڈال کر چلا جائے تاکہ
زندگی کا پہیہ چل پڑے ۔اب آزمودہ اہل ِ خیر کا جذبہ ٔ سخاوت بھی جواب دیتا جا رہا ہے ۔آج عالم یہ ہے کہ پاکستان کشکول اُٹھائے دنیا کے مختلف دارالحکومتوں میں مارا مارا پھر رہا ہے اور کوئی بھی مدد کرنے کو تیار نہیں ہر کوئی پاکستان کو اپنی ادائوں پر غور کرنے کا مشورہ دے رہا ہے اور سعودی عرب اب برملا اور اعلانیہ مشورہ دینے والوں میں شامل ہو گیا ہے ۔ سچ تو یہ ہے کہ چین اور سعودی عرب نے ہر ممکن حد تک پاکستان کی تباہ حال معیشت کوسنبھالا دیا ۔اب وہ پاکستان میں بیٹھ کر اس امداد کے استعمال کا طریقہ اور سلیقہ شعاری تو سکھانے سے رہے تھے ۔سعودی عرب وہ ملک ہے جس نے اپنے روایتی طورطریقوں کو چندبرس قبل تبدیل کرنے کا راستہ اختیار کیا تھا ۔سعودی ماڈل کے تحت کرپشن میں ملوث بااثر افراد کو گرفتارکرکے جیلوں میں ڈالا اور لمبے عدالتی چکروں میں پڑنے کی بجائے ان سے کرپشن کی رقم واپس لے کر رہائی دی ۔اس سے سعودی عرب کی معیشت کو مزید طاقت بھی ملی اور کرپشن کرنے والے بڑے کرداروں کے لئے ایک مثال بھی قائم ہوئی ۔اسی طرح سعودی عرب نے عوام کو یکطرفہ سہولیات دے کر خاندانی بادشاہت سے خوش اور مطمئن رکھنے کی پالیسی میں تبدیلی لا کر ٹیکسوں میں اضافہ کیا اور پہلی بار عوام کو ریاست کے بوجھ میں شریک کیا ۔ظاہر ہے وہاں کے مراعات یافتہ طبقے پر یہ نئی پالیسی گراں گزری ہوگی مگر ریاست کو کسی نہ کسی مقام پر آکر بڑے اور کڑے فیصلہ کرنا پڑتے ہیں ۔محمد بن سلمان نے بھانپ لیا تھا کہ دنیا تیل پر انحصار کم کرنے جارہی ہے اور ایسے میں اس کا سونا یعنی تیل مٹی بن جائے گا اور خود تیل کے ذخائر میں بھی کمی واقع ہو گی۔جونہی سعودی عرب میں معاشی ڈھانچہ کمزور پڑ گیا تو مطمئن اور خوش حال عوام سڑکوں کا رخ کریں گے اور پھر ان حالات سے فائدہ اُٹھانے کے لئے بہت سی قوتیں موجود ہیں۔محمد بن سلمان کے لئے
سعودی عرب کو نئے راستوں پر ڈالنا ایک مشکل فیصلہ تھا کیونکہ سعودی عرب میں ایسی اصلاحات کو روایتی دینی اور سماجی ڈھانچے میں تبدیلی کے مصداق سمجھا جاتا تھا۔ اسی لئے سعودی عرب نے بااثر طبقات کی ناراضی کی پرواہ کئے بغیر ٹیکس عائد کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ۔ اب کرپشن کے خلاف قوانین کو موم کی ناک بنانے والا پاکستان اسی سعودی عرب سے باربار مالی امداد کی درخواست لے کر پہنچ جاتا ہے۔سعودی اس حرکت سے زچ ہونے لگے ہیں مگر پاکستان کے بالادست طبقات کے صبر اور حوصلے کو داد دینی چاہئے کہ وہ بار بار ایک ہی مشق دہراتے چلے آتے ہیں ۔اسی طرح چین کرپشن کے معاملے میں سخت قوانین کا حامل ملک ہے جہاں کرپشن ثابت ہونے کا مطلب موت ہے مگر چین بھی پاکستان کو ہر ممکن مددیتا ہے یہ جانتے بوجھتے ہوئے کہ کرپشن پاکستان کے سماج ،سسٹم اور بالادست طبقات کا مسئلہ نہیں ۔کرپشن ختم کئے بغیر ملکی معیشت کو ٹھیک کرنا ممکن ہی نہیں ہوتا ۔کرپشن میں کمی کا مطلب یہ ہے کہ ملک کے قوانین اپنا کام کررہے ہیں ۔گویا کہ ملک میں انصاف اورقانون کا نظام پوری طرح کام کر رہا ہے ۔ہم نے کرپشن کو کاریگری سمجھ لیا اور کرپشن کرنے والے بڑے کرداروں کو معاشرے میں آئیڈلائز ہونے کی سہولت دے رکھی ہے تو ایسے میں نہ کرپشن ختم ہو سکتی ہے نہ ملکی معیشت میں سدھار آسکتا ہے ۔بھارت کے ایک میجر گور وآریہ کا یہ جملہ قومی ضمیر میں تیر کی طرح پیوست ہوجانا چاہئے کہ ہمیں پاکستان کو سنبھالنے یا قبضہ کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ پاکستان کے کرپٹ عناصر بھارت کو بھی کھا جائیں گے اس کا پاکستان والا حال کریں گے ۔افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ سعودی عرب اور چین جیسے مہربانوں کے مشورے اور میجر گور و آریہ جیسے دشمنوں کے طنز بھی فیصلہ سازوں کی غیر ت وحمیت جگا نے کا باعث نہیں بن رہے اور اصراف اور عیاشیوں کا سلسلہ کم ہونے میں نہیں آرہا ۔حکمرانوں کی عیاشیوں کو دیکھیں تو یہ تیل کی دولت سے مالا مال کوئی عرب ملک دکھائی دیتا ہے کیونکہ مقروض اور مفلوک الحال قوم کے حکمران مہنگی گاڑیاں منگوانے اورہجوم لے کر غیر ملکی دوروں سے باز نہیں آتے ۔اس ملک کی معیشت کی بدحالی صرف متوسط طبقے کے اندر ہی دیکھی جا سکتی ہے جن کی کمر آئے روز بڑھنے والی مہنگائی کے باعث دوہری ہوتی جا رہی ہے۔

مزید پڑھیں:  رموز مملکت خویش خسروان دانند