پانی زندگی اور زندگی سے کھلواڑ

قرآن کی ایک آیت کا مفہوم ہے کہ "ہم نے ہر ذی روح کو پانی سے پیدا کیا” اور صدیوں بعد سائنس بھی اس نظرئے سے اتفاق کرتے ہوئے یہ بتارہی ہے کہ انسانی وجود کا 91 فیصد مائع((پانی)پر مشتمل ہے۔ پیدائش سے لیکر آخری سانس تک، ہرجاندار کو پانی کی ضرورت پڑتی ہے اور پانی کے بغیر زیادہ دیر تک جینا محال ہے۔ قدرت نے پانی کو زبردست خصوصیات کے ساتھ پیدا کیا ہے۔یہ ابل کر اٹھے تو بھاپ، جم کرگرے تو برف،برف جمتی جائے، تو برف زار، برف زارپگھل جائے تو چشمے،حد میں برسے، تو باران رحمت، تجاوز کرے تو باران زحمت۔ آرام سے چلے تو فائدہ ،بپھر جائے تو سیلاب، تنہا رہے تو قطرہ، ساتھ ملے تو دریا، قریہ قریہ پھرے توندی، سب مل جائے تو سمندر۔ سمندر میں خاموش رہے تو راستہ اور امڈ آئے تو طوفان۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام کے قدموں سے نکلے تو آب زم زم اور محمد ۖ کے ہاتھ سے تقسیم ہو، تو آب کوثر۔ چونکہ یہ نعمت خداوندی ہمیں مفت میں مل رہی ہے، تو مال مفت دلِ بے رحم کے مصداق، ہم اس کی بالکل قدر نہیں کرتے ۔ اس کا ضیاع ہمارے لئے کوئی معنی نہیں رکھتی اور ہم تغافل جاہلانہ میں، اپنے لئے آزمائش بڑھاتے جارہے ہیں اور عین ممکن ہے کہ ہماری آنے والی نسل اس کیلئے کشت و خون پر اتر آئے۔ اسی پس منظر پیں اقوام متحدہ نے ہر سال مارچ کے مہینے کی 22 تاریخ کو، عالمی دن کے طور پر "یوم آب” منانے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ دنیا والے، اس کی اہمیت کو جان کر اس کی حفاظت کیلئے ذہنی طور پر تیار ہوجائیں اوراس کی ضیاع کا تدارک ہو سکے۔ دنیا کے تمام مذاہب میں، فضول خرچی ایک معیوب چیز ہے اور دین اسلام نے تو فضول خرچوں کو شیطان کا بھائی قراردیا ہے۔ میں اگر ایک مسلمان کی حیثیت سے مساجد کا تجزیہ بتادوں، تو آپ سب کو بڑی حیرت ہوگی۔ مساجد میں وضو خانے، ٹائلیٹ کا اہتمام ہوتا ہے حالانکہ ماضی قریب تک مساجد میں یہ چیزیں نہیں ہوتی تھیں اور لوگ اپنے گھروں سے تیار ہوکر مساجدآیاکرتے تھے۔ اب چونکہ یہ سارا انتظام مساجد کے اندر ہوتا ہے، تو اس کی وجہ سے دو بڑے مسائل نے جنم لیا، ایک مساجد کی صفائی اور دوسرا پانی کا ضیاع۔ چونکہ آبادی بڑھتی جارہی ہے اور مساجد کے آس پاس کاروبار بھی ہوتا ہے تو دوکانداروں نے اس کا سارا زور مساجد پہ ڈال رکھا ہے۔ کاروباری حلقے کا مائینڈ سیٹ اس طرح بنا ہوتا ہے کہ مفت کی ہرچیز بیدریغ استعمال کرتا ہے اور اپنی کاروباری چیزوں کے حوالے سے،بلا کے محتاط ہوتے ہیں۔ وضو کے وقت، یہ طبقہ کاروباری میل کچیل مساجد میں آکر دھو لیتا ہے اور پانی کے بیجا ضیاع کا سبب بنتا ہے۔ اس سلسلے میں علمائے کرام کوئی ایسا نظام متعارف کروائیں کہ پانی کے ضیاع کوکم سے کم کیا جاسکے۔ اس پر قابو پانے کیلئے ایک کام سینسر والی نل ہیں جو مساجد میں لگائی جاسکتی ہیں اور یہ خال خال نظر آتی بھی ہیں۔ پانی ضایع کرنے والا دوسرا طبقہ داڑھی منڈھوانے (شیوو) والوں کا ہے۔ داڑھی منڈھواتے ہوے، کم از کم فی کس دو لیٹرپانی ضایع کرتا ہے۔ اگر ہم مثال لے لیں کہ ہمارے ملک میں دو کروڑ افراد روزانہ شیو بناتے ہیں اور فی شیو، دو لیٹر پانی استعمال کرتے ہیں ، تو اس حساب سے چار کروڑ لیٹر روزانہ اور ایک کروڑ بیس لاکھ لیٹر پانی ماہانہ ضایع کردیتے ہیں، اور یہ سوچنے والی بات ہے۔ دانتوں کی صفائی ایک سنت ہونے کے ساتھ ساتھ صحت کیلئے بھی بہت کارآمد ہے۔ ہمارے معاشرے میں ٹوتھ پیسٹ یا مسواک کا عام استعمال کیا جاتا ہے لیکن جو پانی کا ضیاع ہوتا ہے وہ اسراف کے زمرے میں ضرور آتا ہے۔ لوگ ٹوتھ پیسٹ اور مسواک کرتے ہوے، نل کھلا چھوڑ دیتے ہیں اور کم از کم دو لیٹر پانی فی کس روزانہ ضائع کردیتے ہیں۔ اس حساب سے دیکھئے تو اگر 10 کروڑ لوگ روزانہ مسواک یا ٹوتھ پیسٹ لگاتے ہیں تو 20 کروڑ لیٹر پانی روزانہ کے حساب سے استعمال کیا جاتا ہے جو 6 ارب لیٹر ماہانہ بن جاتا ہے۔ اس ضیاع کو باآسانی کم کیا جاسکتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں جب سے جدید واش روم کا رواج شروع ہوچکا ہے تب سے پانی کا ضیاع ایک عام سی بات ہوگئی ہے۔ ہمارے دفترات میں واش رومز کی بناوٹ، ہماری اقدار سے مشابہت نہیں رکھتی، اور لوگ ان کا استعمال کرتے ہوے بہت سارا پانی ضائع کرجاتے ہیں۔ کلچرل فرینڈلی واش رومز بناکر بہت سارا پانی بچایا جاسکتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں اہل ثروت گاڑیاں رکھتے ہیں جن کا خمیازہ، ان کو بھی بھگتنا پڑتا ہے، جن کا ان کو گاڑیوں سے کوئی سروکار ہی نہیں۔ یہ اہل ستم، روزانہ گھروں میں اپنے نوکروں یا خود سے گاڑیوں کی باڈی واش کرواتے ہوے، پانی کی تباہی مچادیتے ہیں اور ساتھ ساتھ پورے محلے کو بھی گندہ کرجاتے ہیں۔ان کی اس حرکت کی وجہ سے، پڑوسیوں کو اپنے اپنے گھروں کے سامنے ان کی غلاظت کو دھونا پڑتا ہے اور یوں ایک گاڑی کی وجہ سے پورے محلے کو دھونا پڑتا ہے۔ اس بے احتیاطی کی وجہ سے روزانہ کی بنیاد پرہزاروں لیٹر پانی ضایع ہوجاتا ہے۔ ان کے ساتھ ساتھ، کار واشنگ سروس والے بھی اس گنگا میں ہاتھ دھوتے ہیں اور ہم پانی کے بوند بوند کو ترسنے پر مجبور ہوتے جارہے ہیں۔ اس حوالے سے حکومت گھروں اور محلوں کی سطح پر کار واشنگ پر پابندی لگا سکتی ہے اور بھاری جرمانہ لگا کر اس کا سد باب کیا جاسکتا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی بھی، پانی کی کمی کا ایک اہم سبب ہے اور اس موسمیاتی تبدیلی
میں بھی ہمارا بہت بڑا کردار ہے۔ زمین پر پانی کے دو بڑے ذخائر ہیں، سمندر اور برفانی تودے (گلیشیرز)۔ اس حوالے سے واٹر سائکل میں توازن بہت ضروری ہے۔ لیکن زمین پر کنکریٹ اور دیگر تعمیرات سے زمین کی سطح چھپتی جارہی ہے جس کی وجہ سے پانی جذب نہیں ہو پاتا ، جس کی وجہ سے زیر زمین پانی کم سے کم ہوتا جارہا ہے، اور زمین کے اوپر سیلابی صورت اختیار کرلیتا ہے۔ اللہ پاک جنگلات کی بقا اور افزائش کے لئے بھی مینہ برساتا ہے، کیوں کہ یہ اللہ کی مخلوق ہیں۔ لیکن جنگلات کی بیدریغ کٹائی سے بھی پانی کے وسائل بھی کم سے کمتر ہوتی جارہی ہیں۔ اس حوالے سے سب سے مقدم چیز، رویوں اور اندازِ رہائش میں تبدیلی ہے کیونکہ پانی کا سب سے بڑا نقصان ان رویوں کی وجہ سے ہورہا ہے۔ پانی کا سب سے ذیادہ استعمال ( 80 فیصد) زراعت کے شعبے میں ہے اور یہاں بھی ہم سائنسی انداز میں پانی استعمال کرنے کی بجائے، روایتی طریقوں سے آبپاشی کرکے پانی کا بہت بڑا حصہ ضائع کردیتے ہیں۔ ہم اپنی فصلوں کو پانی میں جب تک ڈبونہ دیں، تب تک تسلی نہیں ہوتی حالانکہ پانی صرف جڑوں تک کافی ہے۔ جن علاقوں میں چاول کاشت کیجاتی ہے وہاں پرزمین تالاب کی صورت اختیار کرجاتی ہے اور پانی ضائع ہوجاتا ہے۔ نہری نظام میں پانی کا رسنا بھی ضائع ہونے کی ایک بڑی وجہ ہے جو مجموعی طور پر پانی کے ضیاع کا ایک بڑا حصہ بنتا ہے۔ گزارش یہ ہے کہ پانی بچانے کے بہت سارے اسان طریقے ہمارے ہاتھ میں ہیں۔ انفرادی طور پر تھوڑی سی کوشش کرکے اجتماعی طور پر بہت سارا پانی بچا سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر ٹوتھ پیسٹ کرتے ہوئے، مسواک لگاتے ہوئے، شیو کرتے ہوئے، نہاتے ہوئے، وضو بناتے ہوئے، حسب ضرورت پانی کی ٹوٹیاں کھولدیں، تو ہزاروں لیٹر پانی روزانہ کی بنیاد پر بچایا جاسکتا ہے اور یہی پانی ہماری آنے والی نسلوں کے کام آئے گا۔

مزید پڑھیں:  فیض آباد دھرنا ، نیا پنڈورہ باکس