اسلام میں احترامِ انسانیت اور مثالی اقدار کا تحفظ

اسلام احترامِ انسانیت کا دین ہے، یہ امن و سلامتی کا علم بردار اور پوری مخلوق کو اللہ کا کنبہ قرار دیتا ہے،یعنی بلا امتیاز رنگ و نسل بنی نوعِ آدم کے ہر فرد سے حسنِ سلوک اور اس کی عزت و آبرو کی حفاظت کا درس دیتا ہے۔اعلی انسانی اقدار کا تحفظ اور انسانیت کا احترام اس کا بنیادی منشور ہے۔اسلام میں انسان کو اشرف المخلوقات قرار دیا گیا ہے، اس کے احترام و اکرام کی تعلیم دی گئی، انسان ہونے کے ناطے اسے پوری کائنات پر فضیلت و برتری عطا کی گئی ۔ ارشاد ربانی ہے:ہم نے آدم کی اولاد کو عزت بخشی اور خشکی اور دریا میں انہیں سوار کیا اور روزی دی،انہیں پاکیزہ چیزوں سے، اور ہم نے انہیں بہت سی مخلوقات پر فوقیت دی ہے۔ (سورئہ بنی اسرائیل)
اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوقات میں انسانوں کو سب سے اچھی شکل و صورت عطا فرمائی۔ ارشادِربانی ہے:ہم نے آدمی کو اچھی شکل و صورت میں پیدا کیا ہے۔(سورہ والتین ) اسلام نے اعلان کیا ہے کہ دنیا کی تمام چیزیںاللہ حق جل شانہ نے انسانوں کے لیے پیدا فرمائی ہیں اور انسان کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔(ترجمہ)اللہ تعالیٰ نے تمہارے نفع کے لیے زمین کی ساری چیزیں پیدا کی ہیں۔ میں نے سب جنات اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔(سورہ البقرہ)
اسلام میں انسانی حرمت و شرافت کی کتنی پاس داری ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کہ اسلام میں تعلیم دی گئی ہے کہ انسان کا احترام موت کے بعد بھی ضروری ہے اور یہ حکم ہے کہ مردے کو پوری عزت و احترام کے ساتھ غسل دیا جائے ، صاف ستھرا کفن پہنا کر خوشبو سے معطر کیا جائے، نماز جنازہ پڑھی جائے، پھر کاندھوں پر اٹھا کر قبرستان لے جایا جائے اور دفن کیا جائے، انسان ہونے کے ناطے ہر شخص کا احترام ضروری ہے۔ ایک بار غیر مسلم کا جنازہ گزر رہا تھا، سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جنازہ دیکھ کر کھڑے ہوگئے، صحابہ کرام نے عرض کیا کہ یہ تو یہودی کا جنازہ ہے،آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ موت ایک خوف ناک چیز ہے، پس تم جنازہ دیکھ کر کھڑے ہوجایا کرو۔دوسری روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جواب میں فرمایا:انسان تو یہ بھی ہے ۔ (مشکواة شریف)
زمانہ جاہلیت میں جنگ کے دوران دشمنوں کے ساتھ ہر برا سلوک روا رکھا جاتا تھا، ان کے جسمانی اعضا کاٹ دئیے جاتے ، دشمنوں کی کھوپڑیوں میں شراب پی جاتی ۔ اسلام نے انسانی حرمت کو پامال کرنے والے ان کاموں سے سختی کے ساتھ روک دیا اور مردوں کی ہر طرح کی بے حرمتی ناجائز قرار پائی۔ حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مردے کی ہڈی کو توڑنا ،زندہ انسان کی ہڈی توڑنے کی مانند ہے۔ (مشکواة شریف)
اسلام میں انسانی عظمت کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ اسلامی عقیدے کے مطابق جتنے انبیا ور سل دنیا میں انسانوں کی ہدایت کے لیے تشریف لائے ،وہ سب کے سب انسان تھے۔ یہودی حضرت دائود، حضرت یعقوب اور حضرت عزیر علیہم السلام کی نسبت یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ ان میں سے ہر ایک خدا کا بیٹا تھا، عیسائی عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ خدا کے بیٹے ، قادرمطلق اور تین ارکان الوہیت میں سے ایک ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو اپنے فضل و کرم سے عقل و خرد کی بیش بہا دولت سے نواز اہے، جس کی بدولت وہ ساری کائنات پر حکمرانی کرتے ہیں، عقل و خرد سب انسانی خوبیوں اور کمالات کا سرچشمہ ہے، ارشاد نبویۖ ہے:اللہ کی تمام پیدا کردہ چیزوں میں عقل اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ باعزت ہے۔ اسی اہمیت کے پیش نظر، اسلام نے عقل کی حفاظت پر خصوصی توجہ دی ہے کہ عقائد اور اخلاق و اعمال میں اعتدال سے ہی قائم رہتا ہے اور انسان کے لیے حقوق و فرائض کی انجام دہی آسان ہوتی ہے، نیز قرآن کریم میں جگہ جگہ عقل کے استعمال اور تفکر کی دعوت دی گئی ہے، تاکہ انسان کائنات اور اس کے نظام پر غور و فکر کرکے نظام الہی اور پیام ربانی کی حقانیت کا اعتراف کرے اور اس کے مطابق زندگی استوار رکھنے کا عہد کرے۔
ارشادِ نبویۖ ہے:مخلوق اللہ کا کنبہ ہے، اللہ کے نزدیک اس کی مخلوق میں پسندیدہ وہ شخص ہے، جو اللہ کے کنبے کے ساتھ سب سے اچھا سلوک کرتا ہو۔(مشکواة شریف)قرآن کریم نے انسانی وحدت و مساوات کے تصور کو ذہنوں میں راسخ کرنے کے لیے ہی جگہ جگہ یایھا الناس اور یا بنی آدم جیسے الفاظ کے ذریعے تمام افراد انسانی کو اپنے لازوال پیغام کا مخاطب بنایا ہے اور سب کو یکساں طورپر دنیا و آخرت میں صلاح و فلاح کی دعوت دی ہے، جن افراد نے اس کی دعوت پر لبیک کہا، انہیں یایھاالذین آمنواسے خطاب کیا گیا، انسانوں میں نسلی یا طبقاتی امتیاز اور فرق کو روا نہیں رکھا گیا۔حج الوداع کے موقع پر سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے تاریخی خطبے میں جن بنیادی انسانی حقوق سے متعلق وصیت و ہدایت فرمائی،ان میں انسانی وحدت و مساوات کا معاملہ خصوصی اہمیت کا حامل ہے ۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:اے لوگو! یقینا تمہارا پروردگار ایک ہے، تمہارا باپ بھی ایک ہے، تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے پیدا کیے گئے، یقینا تم میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ معزز وہ شخص ہے جو تم میں سب سے زیادہ متقی اور پاک باز ہو، کسی عربی کو عجمی پر کوئی برتری نہیں ، مگرتقوی کی بنا پر۔
تمام انسان اسلامی تعلیمات کی رو سے بھائی بھائی ہیں، حسب و نسب اور خاندان و قبائل تعارف اور شناسائی کا ذریعہ ہیں: اور ہم نے تمہیں مختلف خاندانوں اور قبیلوں میں پیدا کیا ہے، تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا:اے اللہ، میں گواہی دیتا ہوں کہ سب انسان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔(سنن ابودائود)محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صرف اس کا اعلان ہی نہ فرمایا، بلکہ اس اصول کو انسانی زندگی کا دستور العمل بنادیا، ساری زندگی اس پر عمل کرکے دکھایا اور اپنے پیروکاروں کے سامنے اس کا ایسا واضح نمونہ قائم فرمایا کہ وہ بھی اس دستور اور اصول کو فراموش نہ کرسکے اور انسانی اخوت و وحدت اور مساوات کا تصور ان کے اعمال و اخلاق میں ہمیشہ جلوہ گر نظر آیا۔
اسلام کے احکام و اعمال میں بھی مساوات انسانی کا مکمل لحاظ کیا گیا ہے، نماز میں سب لوگ اللہ کے حضور ایک ہی حیثیت سے کھڑے ہوتے ہیں، کسی بادشاہ، امیر یا عالم کے لیے کوئی خاص جگہ مخصوص نہیں۔رمضان کے روزوں میں روزے داروں میں بھی امیر و غریب کا کوئی فرق نہیں ہوتا، حج میں سب ایک ہی طرح کا احرام باندھتے ہیں اور حج کے اعمال یکسانیت و اجتماعیت کے ساتھ ادا کرتے ہیں۔
اسلام دین رحمت ہے، بلا تفریق قوم و مذہب تمام انسانوں پر رحم و کرم اس کی خصوصیات میں داخل ہے، اسلام کے علاوہ کسی اور مذہب یا تہذیب میں انسانیت نوازی اور عام انسانوں پر رحم و کرم کا وہ تصور نہیں ملتا،جو اسلام نے پیش کیا ہے، محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:رحم کرنے والوں پراللہ رحم کرتا ہے ، تم زمین والوں پر رحم کرو، تم پر آسمان والا رحم کرے گا۔(صحیح بخاری)انسانوں پر رحم و کرم کو اتنی اہمیت دی گئی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:جنت میں رحم دل انسان ہی داخل ہوگا۔ صحابہ نے عرض کیا: یارسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہم سب رحم دل ہیں۔ سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: نہیں! رحم دل وہ ہے جو عام مخلوق پر رحم کرے۔ (کنزالعمال، ابواب الاخلاق)
ارشادِ نبویۖ ہے:ایک دوسرے سے قطع تعلق نہ کرو، نہ ایک دوسرے سے منہ پھیرو، آپس میں بغض و عداوت نہ رکھو، باہمی حسد نہ کرو اور اللہ کے بندے بھائی بھائی بن جائو۔ (سنن ترمذی)اسلام اسی اخوت و اجتماعیت،اتحاد و یگانگت کی بنیاد پر احترامِ انسانیت ،بنیادی انسانی اقدار اور انسانی حقوق کے تحفظ کا حکم دیتا ہے۔اس لیے کہ اسلام احترامِ انسانیت اور امن و سلامتی کا علم بردار ہے۔انسان دوستی اور احترام انسانیت دین اسلام کا امتیاز اور بنیادی شعار ہے ،جس کے بغیر احترام انسانیت اور امن و سلامتی کا تصور بھی محال ہے۔

مزید پڑھیں:  حلف برداری، حکومت جلد از جلد اسمبلی اجلاس بلائے، ڈاکٹر عباد اللہ