موجودہ صورتحال کا ممکنہ حل

پاکستان میں وقفوں وقفوں سے پارلیمانی نظام حکومت رائج رہا ہے جس میں وزیر اعظم کو سیاسی عددبرتری کی بنیاد پر منتخب کیا جاتا ہے اور وہ اپنے پارلیمان کی مدد سے نظام حکومت چلاتا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ یہاں مارشل لاء کے ادوار بھی رہے ہیں اور مشرف کا دور بھی رہا جب نہ مارشل لائی نظام تھا نہ پارلیمانی نظام تھا بس ایک شخصی نظام تھا جسے آپ کوئی بھی نام دے دیں ۔ ایوب خان کے مارشل لائی دور میں اس ملک کے بڑے بڑے منصوبے شروع ہوئے اور ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوا جسے اس کے بعد کے مارشل لا ایڈمنسٹریٹرنے تباہی کا راستہ دکھایا اور جو ترقی ایک دہائی میں ممکن ہوئی تھی اس پر بھٹو کے دور میں پانی پھیر دیا گیا اور تمام صنعتوں کو قومی تحویل میں لے لیا گیا اور سیاسی طوائف الملوکی کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا جس کے نتیجے میں پھر ملک ایک طویل مارشل لائی دور میں داخل ہوا ۔ان سب کے پیچھے یقینا کئی ایک اندرونی و بیرونی محرکات کارفرما تھیں لیکن یہ وہ دور تھا جب امریکہ نے سرد جنگ میں پاکستان کی حکومت اور یہاں کے مذہبی سیاسی جماعتوں کے استعمال کا فیصلہ کرلیا تھا اس لیے سارے قومی ترجیحات ایک طرف رکھ کر ملک کو سرخ انقلاب کے خاتمے کے لیے بطور چارہ استعمال کیاگیا پھر اس ملک نے ترقی کا راستہ نہیں دیکھا انتظامی طور پر جو تجربات کیے گئے اس سے رہی سہی کسر بھی پوری ہوگئی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ آپس میں باریاں بدلتی رہیں اور کرپشن کے ہوش ربا داستانیں رقم ہوتی رہیں پھر جب ایک سرخ انقلاب کی جگہ خطرہ بننے والی سبز انقلاب جو گزشتہ دو دہائیوں سے امریکہ کا اپنا پروردہ تھا اس کو روکنے اور ختم کرنے کے لیے پھر پاکستان کا انتخاب کیا گیا اور ہم نے دامے درمے سخنے اس میں بھی اپنا حصہ ڈالا جس کے عوض کچھ ڈالر ملے اور اور ترقی کی سفر کا خون ہوتا گیاپھر پرانے سیاست دانوںکو باریاں دی گئیں اور واپس لی گئیں اور ہم خوش فہمیاں پالتے رہے ایسے میں ایک نیا تجربہ کیا گیا اور ایک مشہور کرکٹر کو یہ ذمہ داری دی گئی کہ وہ ملک کی سمت درست کرے ڈوبتے کو تنکے کا سہارا اس ملک کے نوجوان طبقے نے ان سے امیدیں لگائیں اور اس انتظار میں رہے کہ اب ان کے دن بدلنے والے ہیں لیکن ان صاحب نے چن چن کر وہ نمونے اپنی پارٹی میں جمع کیے جو اس سے پہلے کے ادوار میں منظر عام پر نہیں آئے تھے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں روزانہ ایک نیا خواب دکھایا جاتا کبھی کروڑوں گھر کبھی کروڑوں نوکریاں کبھی سمندر سے تیل نکالتے کبھی کاغذوں میں اربوں درخت لگاتے یا پھرانڈوں اور مرغیوں سے معاشی ترقی کا روڈ میپ بناتے پھر جب حقیقت سامنے آئی تو پتہ چلا کہ یہ ساری پیشن گوئیاں دراصل مرشد کی تھیں جنہیں وزراعظم راز نہ رکھ سکے اور اپنے ورکروں اور پاکستان کے عوام کو بتاتے رہے تجربہ ناکام ہوا مرشد کی دست راست مال غنیمت سمیٹ کر بغیر ڈنگی لگائے یورپ پہنچ گئی ۔اس تجربہ کی ناکامی کا تدارک آزمائے ہوئے لوگوں کے ذریعہ کرنے کی کوشش کی گئی اس مرتبہ سب کو موقع دیا گیا کہ وہ اپنے تجربات کام میں لائیں لیکن مرشد کے حکم کی تکمیل میں جو حال ملک کا ہوا تھا پرانے تجربہ کاروں نے اس کو بخشوا دیا جو وہ چار برسوں میں نہیں کرسکے تھے انہوں نے ایک برس میں کردیا اور وہ پاکستان جس نے جرمنی جنوبی کوریا اور دیگر ممالک کو ساٹھ کی دہائی میں قرضہ دیا تھاوہ آئی ایم ایف اور خلیجی ملکوں کے سامنے دو ارب ڈالر کے لیے ہاتھ پھیلاتی رہی مگر انہوں نے چھ ماہ ایسا ذلیل کیا کہ دنیا میں اس کی مثال نہیں ملتی ۔یہ گزشتہ چند دہائیاںایسی تھیں جب دنیا کے دیگر ممالک ترقی کررہے تھے وہاں تعلیمی ،صنعتی اور ٹیکنالوجی کا استقبال ہورہا تھا اورہم بار دیگر افغان مہاجرین کے نخرے اٹھا رہے تھے یوں گزشتہ چار دہائیوں میں ہم نے تعلیم ، صنعت ، حرفت ، زراعت ، معیشت،ٹیکنالوجی اور انصاف کے بجائے کرپشن ، منی لانڈرنگ، قتل و غارت گری ، دہشت گردی ، سمگلنگ ، مسلکی علاقائی اور لسانی تنازعات اور اقربا پروری میں ترقی کی اور جس کے نتیجے میں یہاں عدم استحکام رہا اور پاکستانی روپیہ ڈی ویلیو ہوتے ہوتے بہت نیچے چلا گیا غربت بڑھنے لگی اور یہاں سے بدترین برین ڈرین ہوتا رہا ہے اور ہور ہا ہے برین ڈرین کے ساتھ ساتھ لاکھوں کی تعداد میں عام پاکستانی شہری بھی روزگار اور مستقبل کے خواب آنکھوں میںسجائے غیر قانونی راستوں اور طریقوں سے یورپ جانے کی کوشش کرتے رہے ان میں کچھ ایران میں کچھ ترکی میں اور کچھ سمندروں میں مرتے رہے اور جوڈنکی لگانے میں کامیاب ہوگئے وہ بدترین مشکلات اور بے چہرگی کے عذاب کے ساتھ یورپ کے فٹ پاتھوں پر بھیک مانگ رہے ہیں ۔اس سب کی ذمہ داری یقینا جنہوں نے یہاں حکومت کی ان کے سر ڈالنی چاہئے لیکن دیکھا جائے تو جتنے بھی گزشتہ جمہوری نظام کے سبب بننے والے حکمران ہیں انہیں یہ گلہ رہا ہے کہ انہیں مستحکم حکومت قائم کرنے نہیں دیا گیا وہ چند جماعتوں کے ہاتھوں اپنی عددی اکثریت ثابت کرنے کے لیے بلیک میل ہوتے رہے اور وہ فیصلے نہیں کرسکے جن کا وہ عزم رکھتے تھے یا ان کی خواہش اور ملک کی ضرورت تھی اس لیے یہ جو پارلیمانی نظام حکومت ہے وہ اس ملک میں ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔ان ممالک نے بہت زیادہ ترقی کی ہے جہاں صدارتی نظام ہے جس میں سرفہرست امریکہ ، فرانس ترکی چین روس وغیرہ کی مثالیں دی جاتی ہیں جہاں فرد واحد کو بہت کچھ کرنے کا اختیار حاصل ہے اور وہ طویل مدتی فیصلے کرسکتے ہیں اور اپنی مرضی کی بہترین اور ماہرین کی ٹیم منتخب کرکے امور حکومت چلا سکتے ہیں جس سے مطلوبہ ترقی کے اہداف آسانی کے ساتھ حاصل کیے جاسکتے ہیں ۔یہاں یہ امر بھی بہت اہمیت کا حامل ہے کہ پاکستان میں سیاسی جماعتیں حقیقی معنوں میں سیاسی نہیں ہیں بلکہ بدترین موروثی جماعتیں بن چکی ہیں ۔ پاکستان کی تمام بڑی جماعتوں کو دیکھا جائے تو ان میں صلاحیت کے بجائے اہمیت اولاد کو دی گئی ہے چند خاندان اس کل سیاست کا محور ہیں یہ خاندان عمومی طور پر اس کو ایک خاندانی کاروبار سمجھ کر اس کو ترقی دے رہے ہیں اور اس کے لیے وسائل و سرمایہ ریاست کا استعمال کرتے ہیں ۔ یہی دو دہائی پہلے تک ہمسایہ ملک ہندوستان میں بھی ہوتا رہا تھا پھر وہاں ایک انقلاب آیا اور سیاست خاندانوں سے نکل کر دیگر لوگوں کے ہاتھوں میں چلی گئی یہاں تک ہوا کہ دہلی اور اب پنجاب میں عام آدمی پارٹی کے نام سے پڑھے لکھے لوگوں نے حکومت سنبھالی اور اس کے ثمرات بھی ملنے لگے دہلی میں تو ایک مثالی وعوامی فلاحی ریاست کے تمام وعدے پورے کیے گئے اور اس مقصد کے لیے صرف مقامی وسائل کا استعمال کیاگیا کوئی قرضہ نہیں لیاگیا کسی کی مدد نہیں لی گئی کوئی خسارے کا بجٹ نہیں بنایا گیا بس وسائل کا درست استعمال کیا گیا اور اس میں بدعنوانی نہیں کی گئی ۔ اس لیے وہاں ہر شہری کو دو سو یونٹ بجلی فری ملتی ہے پانی کا بل نہیں لیا جاتا ، صحت کی سہولیات فری دی جارہی ہیں صفائی اور نکاسی آب کا مسئلہ مستقل بنیادوںپر حل کیا گیا سرکاری سکولوں میں تعلیم فری اور اعلیٰ معیار کی دی جارہی ہے جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے زندگی کو باسہولت بنا دیا گیا ہے ۔کیا ایسا کراچی میں نہیں کیا جاسکتا کیا جاسکتا ہے لیکن کرپٹ سیاسی اور بیوروکریسی کا عفریت ایسا کرنے نہیں دیتا ورنہ دہلی سے کراچی کے وسائل دس گنا زیادہ ہیں بس فرق یہ ہے کہ یہاں بھٹو زندہ ہے اور دہلی میں انجینئر اروند کیجروال زندہ ہے ۔اگر ہم نے اس ملک کو تمام مسائل سے نکالنا ہے تو پھر ہمیں مشہور نہیں قابل لوگوں کا انتخاب کرنا ہوگا ۔ انتخابات کا موجودہ طریقہ کار ایسا ہے کہ اس میں قابل انسان کا کامیاب ہونا ناممکن ہے اس لیے ریاست کو چند برسوں کے لیے بنگلہ دیشن ماڈل کو اپنانا ہوگا جس میں حقیقی معنوں میں محب وطن ماہرین کی ایک ٹیم کو ایک قابل ترین محب وطن کی سربراہی میں یہ ٹاسک سونپا جائے کہ ملک کو ان مسائل کی دلدل سے نکال کر خود انحصاری کی راہ پر گامزن کیا جاسکے ۔اپنے وسائل کا صحیح اور بروقت استعمال اور نظام تعلیم اور نظام حکومت کو اگر جدید خطوط پر استوار کیا جائے تو ہم بنگلہ دیش ماڈل پر چل سکتے ہیں اور بھیک مانگنے کی بجائے دوسروںکو امداد دینے کے قابل ہوسکتے ہیں ۔اس پر سوچنا چائیے کہ کیا یہ موجودہ نظام اور اس کے سیاسی کرتا دھرتا اس قابل ہیں کہ ان کے ہاتھوں میںمزید اس ملک کی باگ ڈور دی جائے ۔سوچیں !

مزید پڑھیں:  صنفی تفریق آخر کیوں ؟