عورت کو سیدھا کرنا ممکن نہیں

ہم میں سے اکثر احادیث کے حوالے سے یہ بات دہراتے رہتے ہیں کہ عورت ٹیڑھی پسلی کی پیدائش ہے اور اس کو سیدھا کرنا ممکن نہیں ہے، سوال یہ ہے کہ کیا اللہ پاک ایسا ہے کہ اپنی ایک اہم مخلوق کو ایسا بنا دے یا بات کچھ اور ہے، آئیے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، اس حوالے سے سب سے اہم بات یہ ہے کہ کبھی بھی پوری حدیث نہیں سنائی جاتی ہے، پہلے مکمل حدیث دیکھیں ، آپ نے فرمایا کہ جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو تو وہ اپنے ہمسائے کو ایذا نہ پہنچائے، اور جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو تو وہ اپنے مہمان کی خوب ضیافت کرے، عرض کیا گیا کہ اللہ کے رسول! مہمان کا حق کیا ہے، آپۖ نے فرمایا کہ تین (دن حق ضیافت) پس جو ان (تین دنوں) سے زیادہ ہو یا ان کے بعد ہو تو وہ صدقہ ہے، اور جو اللہ اوریوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو، اسے کوئی معاملہ پیش آئے تو وہ خیر و بھلائی کی بات کرے یا پھر خاموش رہے، عورتوں کے بارے میں خیر و بھلائی کی وصیت قبول کرو، کیونکہ وہ پسلی سے پیدا کی گئی ہیں اور پسلی میں بھی سب سے زیادہ ٹیڑھا اس کے اوپر کا حصہ ہے، اگر تم نے اسے سیدھا کرنا چاہا تو اسے توڑ ڈالو گے، اور اگر تم اسے چھوڑ دو گے تو وہ ٹیڑھی ہی رہے گی، پس تم عورتوں کے بارے میں خیر و بھلائی کی وصیت قبول کرو، (المسند)، مکمل حدیث کو دیکھنے سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ یہاں مرد اور عورت کی حیثیت یا مرتبے کا کوئی تقابل نہیں ہے بلکہ اہم سماجی ہدایات فراہم کی گئی ہیں، عرب کے سماج کی ضرورت کے عین مطابق ہمسائے اور مہمان کے حقوق بیان کئے گئے اور پھر مردوں کی بالادستی والے معاشرے میں پہلے یہ حکم دیا کہ عورتوں کے ساتھ خیر اور بھلائی کا معاملہ کرو، قرآن کریم میں یہ تو موجود ہے کہ اللہ پاک نے پہلے انسان کو پیدا کیا پھر اس سے اس کی زوجہ کو پیدا کیا(سورہ نسائ)، لیکن کیسے اور کس حصے سے پیدا کیا اس بارے میں قرآن کریم خاموش ہے، اور جیسے ہم کہتے ہیں فلاں ڈھیٹ ہڈی کا بنا ہے تو اس میں ہڈی نہیں بلکہ ایک خصلت کی طرف توجہ دلائی گئی ہے، بخاری اور مسلم میں بھی جب یہ حدیث آتی ہے تو پہلے آپ عورتوں کے ساتھ اچھے سلوک کا حکم دیتے ہیں، حدیث کی مختلف کتابوں میں یہ حدیث بھی موجود ہے کہ بے شک عورت کی مثال پسلی جیسی ہے، گر تم اس کو سیدھا کرنا چاہو تو وہ ٹوٹ جائے گی اور اگر تم اس سے فائدہ اٹھانا چاہو تو فائدہ اٹھاؤ گے اور اس کے اندر ایک ٹیڑھ پن ہے پس تم اس سے فائدہ اٹھاؤ باوجود اس کے کہ اس کے اندر ٹیڑھ پن ہے،(صحیح ابن حبان )، اب سوال یہ ہے کہ عورت سے فائدہ اٹھانے کا کیا مطلب ہے، تو اس سے مراد میاں بیوی کی خوشگوار اور پرسکون زندگی ہے جہاں نہ صرف زوجین ایک دوسرے کے لئے باعث سکون ہوں بلکہ بچوں کی بہترین پرورش ہو اور سارا گھرانہ خوش رہے ، فائدہ اٹھانا مفاہمت کا طریقہ ہے اور اس کے مقابلے میں اگر ردعمل کا طریقہ اختیار کیا تو خوش گوار اور کامیاب زندگی ناممکن ہے، ٹیڑھ پن سے عورت کا فطری طور پر جذباتی ہونا مراد ہے، اور اسی وجہ سے عورت زیادہ حساس اور ردعمل کی نفسیات رکھتی ہے، اگر مرد بھی عورت کی فطرت کو نہ سمجھتے ہوئے ردعمل کا طریقہ اختیار کرے گا تو فائدہ اٹھانا یعنی میاں بیوی کا باہمی تعلق متاثر ہو گا یہاں مرد کو حکم ہے کہ عورت کی فطرت جسے ہم ٹیڑھا پن کہتے ہیں کو سمجھ کر یک طرفہ مسلسل مفاہمت اختیار کرے، ایک اور حدیث کی مدد سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے، ایک مرتبہ حج کے موقع سیدنا عمر اور جریر بن عبد اللہ کی ملاقات ہوئی، عمر نے جریر سے پوچھا کہ اے ابو عمرو، تمھارا برتاؤ اپنی بیویوں کے ساتھ کیسا ہے، جریر نے کہا کہ اے امیر المومنین، مجھے ان کی طرف سے بہت سختی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، میں ان میں سے کسی کی باری کے دن کے علاوہ اس کے گھر میں نہیں جا سکتا (کہ اس سے دوسری بیویاں ناراض ہو جاتی ہیں) ، میں ان میں سے کسی کے بچے کو اس کی ماں کی باری کے دن کے علاوہ بوسہ دے دوں تو دوسری بیویاں ناراض ہو جاتی ہیں، عمر نے کہا کہ جس چیز کا تمھیں سامنا ہے، مجھے بھی اپنی بیویوں کی طرف سے اسی کا سامنا ہے، میں بازار میں یا لوگوں کے پاس کوئی جانور یا کپڑا خریدنے کے لیے جاتا ہوں تو بیوی کہتی ہے کہ یہ لوگوں کی لڑکیوں کو دیکھنے یا ان سے شادی کی بات کرنے گیا ہے، عمر نے کہا کہ عورتوں میں سے بہت سی نہ اللہ پر ایمان رکھتی ہیں اور نہ مومنوں پر اعتماد کرتی ہیں، ہو سکتا ہے کہ تم انھی میں سے کسی کا کوئی کام کر رہے ہو اور وہ تم پر الزام لگا دے (کہ تم اس کا خیال نہیں رکھتے)، یہ سن کر عبد اللہ بن مسعود نے، جو وہیں لوگوں میں موجود تھے، کہا کہ اے امیر المومنین، کیا آپ نہیں جانتے کہ ابراہیم نے اللہ تعالیٰ کے سامنے سارہ کے مزاج میں درشتی کی شکایت کی تو ان سے کہا گیا کہ عورت کی مثال پسلی کی سی ہے، اگر تم اس کو سیدھا کرنا چاہو گے تو اسے توڑ دو گے اور اگر ایسے ہی رہنے دو گے تو ٹیڑھی رہے گی، اس لیے اپنی بیوی کے مزاج میں جو بھی خامی(عادت) ہے، اس کے ساتھ گزارا کرو، اس پر عمر نے عبد اللہ بن مسعود سے کہا کہ تمھارے سینے میں بہت زیادہ علم ہے، (مصنف ابن ابی شیبہ)، اور کیا یہ اللہ پاک کا حکم نہیں ہے کہ عورتوں کے ساتھ بھلے انداز میں زندگی بسر کرواور اگر تم انہیں پسند نہ کرتے ہو تو یہ عین ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرتے ہو اور اللہ نے اس میں بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہو،(سورہ نساء )، اسی طرح آقا نے فرمایا کہ مومن مرد (شوہر) مومن عورت(بیوی) سے بغض نہ رکھے، اگر اس کی ایک عادت اسے ناپسند ہے تو اس کی دوسری عادت پسندیدہ بھی ہو گی، ( مسلم) اس حدیث مبارکہ میں آقا عورتوں کے ساتھ بہترین سلوک کی نصیحت فرما رہے ہیں، اور ساتھ ہی یہ وضاحت بھی فرما رہے ہیں کہ عورت کے ساتھ حسن سلوک صرف اس صورت میں نہیں کرنا کہ جب ان کی سب باتیں آپ کی مرضی کے مطابق ہوں، عورت کی خاص فطرت کی وجہ سے عین ممکن ہے کہ آپ کو اس کی کئی باتیں پسند نہ آئیں، اس کی طرف سے آپ کو کوئی تکلیف بھی پہنچے تو اسے اس کی فطرت کا حصہ سمجھ کر درگزر کرنا اور یہی وہ ٹیڑھ پن ہے، قارئین کرام یہ ممکن نہیں ہے کہ تمام جہانوں کا رب اپنی کسی بھی مخلوق کے ساتھ ایسا کرے کہ اسے کسی خرابی کے ساتھ پیدا کرے، کیا مرد غلطی نہیں کرتے وہ تو ٹیڑھی پسلی کی پیدائش نہیں ہیں اور مرد سب سے بڑی غلطی یہ کرتے ہیں کہ گھر میں کمزور عورت اور بچوں کے سامنے مرد بن جاتے ہیں، مرد بننے کی جگہ تو گھر سے باہر ہے اور گھر میں مرد بننا ہے تو آقا جیسے مرد بنیں جو گھر والوں کی بھی خدمت فرماتے تھے، (ترمذی)، یہ سمجھ لیں کہ عورت کے ٹیڑھے پن کی مثال کسی بھی عمارت کے خم یا محراب کی سی ہے کہ یہ ٹیڑھا پن خلقتاً ہے اور اپنی نوعیت کے اعتبار سے یہ حسن پیدا کرتا ہے، ورنہ تو مرد بھی عورت کے لئے ٹیڑھا ہوتا ہے لیکن حدیث میں عورت کا ذکر صرف اس لئے ہے کہ وہاں مخاطب مرد ہیں اور مردوں کو ہی حکم دیا ہے کہ عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کریں۔

مزید پڑھیں:  منشیات اور گداگری کی لعنت