پشاور میں فضائی آلودگی کی بدترین صورتحال

پشاور کی صنعتوں اور گاڑیوں کے دھویں میں خیبر پختونخوا کی انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی غائب نہ ہوتی تو یہ نوبت نہ آتی ۔ صوبائی دارالحکومت میں آلودگی اور ہوا کی کثافت کی جوصورتحال ہے اس پر توجہ نہ دینے اور بے حسی کی جو صورتحال ہے بعید نہیں کہ بہت جلد پشاور میں بھی آلودگی کے باعث تعلیمی اداروں کی بندش کی نوبت آئے ویسے بھی صوبائی دارالحکومت کا کوئی بھی علاقہ ایسا نہیں جہاں کا ماحول مضر صحت سے کم درجے کا ہو حال ہی میں ایک رپورٹ میں بتایاگیا تھا کہ پشاور کا شمار آلودہ ترین شہروں میں ہوتا ہے جہاں دھوئیں کے باعث پوری فضاپر آلودگی چھائی رہتی ہے لیکن نوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی اس بابت کسی بھی کارروائی کرنے سے گریزاں ہے ۔صوبائی دارالحکومت کی جدید بستی حیات آباد میں صنعتی زونز کے کارخانوں سے زہریلے دھوئیں کا اخراج ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتا جارہاہے صنعتوں سے اٹھنے والے دھوئیں کے باعث حیات آباد میں دھوئیں کے کالے بادلوں کا راج معمول بن گیا ہے۔ متعلقہ اداروں ضلعی انتظامیہ اور انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی کی جانب سے کارخانوں اورزیادہ دھواں دینے والی گاڑیوں کیخلاف کوئی کارروائی نہیں کی جارہی ہے جس کے باعث مسلسل مسائل بڑھتے جا رہے ہیں ۔امر واقع یہ ہے کہ صوبے میں ایک جانب جہاں سرکاری طور پر شاید ماحولیاتی آلودگی اور کثافت کوئی مسئلہ ہی نہیں گردانا جا رہا ہے اور ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے کے مصداق سرکاری اداروں کا اس حوالے سے سرے سے کوئی وجود ہی نظر نہیں آتاورنہ کم ازکم صورتحال اس قدر گھمبیر نہ ہوتی متعلقہ اداروں کے حکام کو سرکاری خزانے سے تنخواہیں اورمراعات تو مل رہی ہوں گی لیکن کارکردگی کا سوال نہیں ہورہا ہو گا ورنہ کم از کم نمائشی قسم کے اقدامات ہی سہی کچھ تو نظرآنا چاہئے اور کسی نہ کسی حد تک وہ دعوے ہی کے قابل ضرور ہوتے ۔صوبائی دارالحکومت میں پلاسٹک کے تھیلوں کی تیاری و استعمال پر پابندی اور اس بارے بار بار اجلاسوں کاانعقاد کرکے دعوے ہوتے رہے مگر زمینی حقیقت یہ ہے کہ تندور پر روٹی بھی پلاسٹک کے تھیلوں میں فروخت ہونے لگی ہے پابندی کے باوجود باقاعدگی سے فیکٹریاں چل رہی ہیں حالانکہ ہونا تویہ چاہئے تھا کہ اس پرپابندی کے بعد پلاسٹک کی پیکنگ میں فروخت ہونے والی دیگراشیاء و مصنوعات کی اس طرح سے فروخت کی ممانعت کے اقدامات ہوتے ۔ صوبائی دارالحکومت میں تہہ خانوں میں باتھ رومز بناکر اس کا پانی زمین میں جذب ہونے کے لئے چھوڑنے کاکسی جانب سے نوٹس نہیں لیا جارہا ہے خاص طور پر حیات آباد میں یہ مسئلہ سنگین سے سنگین تر ہوتا جاہا ہے اور زیرزمین پانی میں گٹر کے پانی کی آمیزش کے اثرات ظاہر ہو رہے ہیں ڈاکٹروں کے مطابق حیات آباد میں اکثر وبائی امراض پھوٹ پڑنے پیٹ معدے اور دیگر بیماریوں میں اضافہ کی بڑی وجہ آبی آلودگی ہے شہری ترقیاتی ادارے کے حکام بجائے اس کے کہ اس کا نوٹس لیں پانی کاتجزیہ کرنے سے نہ صرف کتراتے ہیں بلکہ شہریوں کی جانب سے پانی کی منفی ٹیسٹ رپورٹ جمع کرانے پر اس پر کان دھرنے کوبھی تیار نہیں ۔ صنعتی علاقے سے دھوئیں کے مرغولے اور خاص طور پر ٹشوپیپر کے کارخانوںسے تیز دھواں نکلنے کا کسی بھی ادارے کی جانب سے نوٹس نہیں لیا جارہا ہے صوبائی دارالحکومت پشاور جو کبھی باغوں اورپھولوں کا شہر کہلاتا تھا اب تیزی سے کنکریٹ کے جنگل میں ڈھل رہا ہے۔افسوسناک امر یہ ہے کہ ماحولیاتی پیمانے کے اس قدر خوفناک صورتحال کے باوجود اور حکومت کی طرف سے بے بنیاد پابندیوںکے باوجود اب بھی پشاور کے ارد گرد کے رہے سہے علاقے بھی کھیت کھلیان سبزہ باغات اور کھلے مقامات ہائوسنگ سکیمز کے طاقتور نہنگوں کے منہ کا نوالہ بدستور بن رہے ہیں۔ سنجیدہ حلقوں کا کہنا ہے کہ ماحولیاتی آلودگی کے پیمانے جان بوجھ کر مقررہ حد سے کہیں زیادہ اونچائی پر نصب ہیں اگر ان پیمانوں کو معیاری حد پر لا کر نصب کیاجائے تو رپورٹ مزید خوفناک ہوسکتی ہے ۔ صورتحال پرقابوپانے یاکم ازکم ماحولیاتی کثافت میں قدرے کمی لانے کا تقاضا ہے کہ ہنگامی بنیادوں پراس سنگین مسئلے پر توجہ دی جائے مگر لگتا ہے کہ طویل المدت وژن کا فقدان ہے۔اس ضمن میں بلاتاخیر تمام شعبوں میں پائیدار طریقوں کے ساتھ سخت ماحولیاتی ضابطے کے نفاذ کو یکجا کرکے اس پرعملدرآمد کی ضرورت ہے صنعتوں اور اینٹوں کے بھٹوں میں صاف ستھری ٹیکنالوجیوں کو اپنانا فضلے کے انتظام کو بڑھانا، اور گاڑیوں کی آلودگی کو کم کرنے کے لیے عوامی نقل و حمل کو بہتر بنانے پر خصوصی توجہ دی جانی چاہئے۔شہر میں ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانے کے لئے جہاں مروجہ اقدامات کی ضرورت ہے وہاں اس امرپر بطور خاص توجہ دی جائے کہ کسی بھی بڑی عمارت اور منصوبے کو شروع کرتے وقت ماحولیاتی ماہرین سے این اوسی لی جائے اور ہر ادارے اور شہریوں سبھی کواس ذمہ داری میں شریک کیا جائے کہ وہ ماحولیاتی تحفظ میں اپنا کردار ادا کریں۔ شہریوں کو چھوٹی چھوٹی کیاریاں جومیسر ہوں یاپھرگلی کے کونے میں یاکم ازکم گھروں اور چھتوں پرچھوٹے بڑے بیل بوٹے لگا کر اپنے گھروں میں ہوا کی صفائی کا خود سے اہتمام کرنے کا شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے جب تک اس سنگین صورتحال کی بنیادی وجوہات کا تدارک کرنے پر ہنگامی بنیادوں پر توجہ نہیں دی جائے گی اس مسئلے کی وسعت کے باعث سطحی اقدامات ناکافی اور لاحاصل ہی رہیں گے۔

مزید پڑھیں:  اب یا کبھی نہیں