خیبر پختونخوا کی جامعات کا بحران

اعلیٰ تعلیم کسی بھی ملک اور معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے ۔جن ملکوں میں اعلیٰ تعلیم پر توجہ نہیں دی گئی وہ ممالک اب بھی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزاررہے ہیں ۔ اور دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک کی ترقی کا راز اعلیٰ تعلیم ہی ہے اس لیے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں ہزاروں کی تعداد میں یونیورسٹیاںہیں اور یہ ممالک اپنے جی ڈی پی کا دس فیصد سے زیادہ ان تعلیمی اداروں پر خرچ کرتے ہیں ۔ حالیہ برسوں میں بنگلہ دیش ، ویتنام ،جنوبی افریقہ،استوائی گنی، سیشلزاور دیگر ممالک نے تعلیم پر اپنے جی ڈی پی کا دس فیصد لگانا شروع کیا تو یہ ممالک نہ صرف خود کفیل ہوگئے ہیں بلکہ یہاں کے لوگوں کی زندگی میں وہ بدلاؤ آیا ہے کہ ہم اس کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے۔ جبکہ ہمارا شمار ان ممالک میں ہورہا ہے جہاں تعلیم پر توجہ گزشتہ دہائیوں کے مقابلے میں مزید کم ہوگئی ہے جس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے ۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد اصولی اور قانونی طور پر تعلیم کا محکمہ صوبوں کے دائرہ اختیار میں آتا ہے مگر چند ایک دیگر اداروں کی طرح اعلیٰ تعلیم بھی گزشتہ کچھ برسوں سے وفاق اور صوبوں کے بیچ سینڈوچ بنا ہوا ہے ۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے اس صدی کے شروع میں جو ادارہ بنایا گیا تھا یعنی ہائرایجوکیشن کمیشن پاکستان وہ اسلام آباد میں ہے او راس ادارے کو بجٹ وفاقی حکومت دیتی ہے ۔یہ بجٹ گزشتہ دس برسوں سے ہر برس کم ہوتا جارہا ہے جبکہ اس عرصے میں ملک میں یونیورسٹیوں کی تعدادمیں چار گنا سے زیادہ کا اضافہ ہوگیا ہے جو رقم سالانہ بجٹ میں وفاقی حکومت دیتی ہے اس میں ایک بہت بڑا حصہ ہائرایجوکیشن کمیشن اپنے اخراجات کے مد میں خرچ کرتی ہے جبکہ یونیورسٹیوں کو اس بجٹ سے بہت کم حصہ براہ راست ملتا ہے ۔ جو بھی حکومت آتی ہے وہ سیاسی قد کاٹھ بڑھانے یا کلاس فور بھرتی کرنے کے لیے یونیورسٹیاں بناتی جارہی ہے ۔ اس مقصد کے لیے ہائر ایجوکیشن کمیشن پاکستان یا پلاننگ کمیشن آف پاکستان یا صوبائی پی اینڈ ڈی نے کوئی سکول میپنگ نہیں کی جس کو سامنے رکھ ملک میں یونیورسٹیاں بنائی جاتیں ۔ بغیر کسی منصوبہ بندی جو یونیورسٹیاں یہ حکومتیں بنا تی جارہی ہیں ان یونیورسٹیوں کو چلانے کے لیے مطلوبہ فنڈز فراہم کرنے کا کوئی بندوبست نہیں کررہی ہیں ۔یہ حکومتیں ان یونیورسٹیوں میں ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو بھرتی کرجاتی ہیں ۔جن کو ہر ماہ تنخواہ دینی ہوتی ہے مگر اس مقصد کے لیے کوئی عملی انتظام موجود ہی نہیں ہے ۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یونیورسٹیوں میں طالب علموں کی فیسوں میں ہوش ربا اضافہ کردیا گیا ہے ۔جبکہ اس کے مقابلے میں ان یونیورسٹیوں میں دنیا کی دیگر یونیورسٹیوں کی طرح کی کوئی سہولت دستیاب ہی نہیں ہے ۔ مالی وسائل کی کمی کی وجہ سے صوبہ کی تقریباً تمام یونیورسٹیوں اب زیادہ تر ویزیٹنگ فیکلٹی اور ایڈہاک ازم پر چلائی جارہی ہیں ۔جس کے نتیجے میں تعلیمی معیار خراب سے خراب تر ہوتا جارہا ہے ۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد یونیورسٹیوں میں سیاسی دخل اندازی حد سے بڑھ گئی ہے جس کی وجہ سے وہ تعلیمی ماحول جو کسی زمانے میں ان یونیورسٹیوں میں ہوا کرتا تھا وہ بھی اب مفقود ہے ۔ یونیورسٹیوں کے لیے پورے پاکستان میں ایک ہی طرح کا ایکٹ تھا جسے ١٩٧٤ کا ایکٹ کہا جاتا تھا ۔اس کو اپنے ذاتی فائدے اور سیاسی داخل اندازی کے لیے بار بار چھیڑا گیا اور یونیورسٹیوں کو چلانے والے اداروں یعنی سینٹ اور سنڈیکیٹ کی شکل بگاڑ کر رکھ دی ۔ اب یونیورسٹی سینڈیکیٹ میں سارے ڈینز،چار یونیورسٹی ٹیچر ،ایڈمنسٹریشن کے پانچ لوگ ،تین صوبائی سکریٹریز ،دو کالجوں کے پرنسپل بیرونی اور ایک چیئرمینز اور پرنسپلز کا نمائندہ اندرونی، عدلیہ، چانسلر اور کمیشن کا ایک ایک نمائندہ ممبر ہوتا ہے ۔جبکہ دنیا میں یونیورسٹیوں کے لیے جو سنڈیکٹ بنایا جاتا ہے وہ بالکل الگ ہے ۔یونیورسٹی کے سنڈیکیٹ میں اصولی طور پر یونیورسٹی سے پانچ اور باہر سے دس ممبر ہونے چائییں یہ ممبر کسی سیاسی وابستگی پر نہیں بلکہ اپنے نام اور کام کی وجہ سے اس کے ممبر ہوں اور یہ وہ لوگ ہوں جو تعلیم کو اور انتظام تعلیم کو سمجھتے ہوں ۔ ان کا تعلیم کے شعبہ میں تجربہ ہو۔ ان میں فنانس ۔منصوبہ بندی کے ماہر ہوں ۔ان ممبروں کوLeadership strategic management کا پتہ ہو ۔یہ دنیا کی تعلیم میں جدید رجحانات سے آگاہ ہوں ۔یہ بزنس پلان کا علم رکھتے ہوں ۔ٹرشری ایجوکیشن کا مطلب جانتے ہوں ، ان لوگوں نے ٹرشری ایجوکیشن میں کم ازکم دو یا تین دہائی کام کیا ہو۔تو پھر کہیں جاکر وہ اعلیٰ تعلیم کو فائدہ پہنچا سکتے ہیں ۔ یہ جو موجودہ جو ڈھانچہ ہے اس میں تمام وہ لوگ جمع ہیں جن کے اپنے اپنے مفادات ہیں ۔اورحکومت کی طرف سے جو لوگ آتے ہیں وہ بھی مستقل نہیں ہوتے ہر میٹنگ میں ایک نیا بندہ شرکت کرنے آتا ہے جس کو سیاق و سباق کا علم ہی نہیں ہوتا ۔ اس لیے یونیورسٹیوں میں قانون سازی اور یونیورسٹیوں کا مفاد اور خود مختاری کا عمل انتہائی زوال پذیر ہے ۔جبکہ ساتھ ہی اصولی اور قانونی طور پر یونیورسٹیوں کا سربراہ اعلیٰ چانسلر ہے جو صوبہ کا گورنر ہوتا ہے ۔ لیکن کمال دیکھیں کہ یونیورسٹیوں کے چانسلر کاکوئی چانسلر سیکرٹریٹ ہی نہیں ہے ۔ اٹھارہویں ترمیم کو ڈھال بنا کر سارے اختیارات وزیر اعلیٰ کو دئیے گئے ہیں ۔ اگر صوبہ کی تینتیس یونیورسٹیوں کو عملی طور پرفعال کرنے اور مالی طور پر مستحکم کرنا ہے تو لازمی امر ہے کہ ایک چانسلر سکریٹریٹ بنایا جائے ۔ جس میں تمام یونیورسٹیوں سے ایک ایک اہلکار ایک برس کے لیے خدمات سرانجام دے اور یہ سیکرٹریٹ دنیا کے چانسلر سکرٹریٹس کی طرح تما م یونیورسٹیوں کا مکمل ڈیٹا جمع کرے ۔ ان یونیورسٹیوں کے لیے درکار سالانہ بجٹ کے حقیقی تخمینے لگائے ۔ ان یونیورسٹیوں کی ضروتوں کا جائزہ لے کر ایک strategic Planبنائے ۔وسائل کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنائے اور یونیورسٹیوں میں ہونے والی ترقی کا سہ ماہی جائزہ لے۔ ان پر چیک رکھے ۔ یونیورسٹی کے ملازمین کے تنازعات کا حل ڈھونڈے ۔ یونیورسٹیوں اور حکومت کے بیچ ایک پل کا کردار ادا کرے ، چانسلر اسکالرشپ اور انڈومنٹ فنڈ کا قیام عمل میں لائے ۔ پورے صوبہ کی سکول میپنگ کرے ۔ صوبہ کی یونیورسٹیوں کو دنیا کی دیگر یونیورسٹیوں اور اداروں کے تعاون اور شراکت کے مواقع فراہم کرے ۔یونیورسٹیوں کو سیاسی اور حکومتی مداخلت سے بچائے اور یونیورسٹیوں کی ریسرچ کو انڈسٹری اور دیگر حکومتی اداروں تک پہنچائے ۔جب تک ایسا نہیں ہوگا یہ مسائل بڑھتے رہیں گے ۔ اس وقت صوبہ کی یونیورسٹیاں شدید ترین مالی اور انتظامی بحرانوں سے گزر رہی ہیں ۔ ہر طرف ہڑتالیں ہیں اور بدنظمی ہے ۔یونیورسٹیوں میں سیاسی پارٹیوں کے پروردہ طلبا اور غیر متعلقہ لوگ روز تماشہ لگاتے ہیں ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہے ۔ یونیورسٹیوں کے کیمپسوں میں تعلیمی ماحول ختم ہوگیا ہے ، ہر طرف افراتفری ہے ، ٹریفک اور مضر صحت اشیاء کے ریڑھیوں اور اسٹالوں سے یونیورسٹیوں کے کیمپس بھر گئے ہیں ۔ ان کیمپسوں میں منشیات کا استعمال اتنا زیادہ ہوچکا ہے کہ اس کا بیان ممکن نہیں ہے ۔ یونیورسٹیوں کے ہاسٹل غیر متعلقہ اور جرائم پیشہ افراد کے اڈے بن گئے ہیں ۔ یونیورسٹی اساتذہ اور یونیورسٹی ایڈمنسٹریشن ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار ہیں ۔ یونیورسٹیوں میں مالی بحرانوں کی وجہ سے انتظامی طور پر وہ ماحول بن ہی نہیں پارہا جس میں تعلیم دینے کا عمل پروان چڑھ سکے۔ یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز دوہرے عذاب کا شکار ہیں ۔ حکومت ان کو مطلوبہ وسائل فراہم نہیں کررہی اور ان پر اصلاحات کے لیے دباؤ ڈالتی ہے جبکہ ملازمین کو تنخواہوں اور مراعات دینے کے لیے فنڈ نہ ہونے سے یونیورسٹی کے ملازمین ان کے خلاف احتجاج پر ہیں ۔ جس کا براہ راست اثر طالب علموں پر پڑتا ہے اور اس سبب سے صوبہ میں تعلیمی ترقی زبوں حالی کا شکار ہے ۔یہ صوبہ بدقسمت صوبہ ہے اس لیے کہ گزشتہ چار دہائیوں سے زیادہ یہ عالمی پروکسی جنگوں کی وجہ سے تباہ ہوا ۔اس نے دہشت گردی کا سامنا کیا ، یہاں روزگار اور کاروبار کے مواقع ختم کیے گئے ، یہاں لاکھوں افغان مہاجرین کو بسایا گیا ۔ یہاں کے وسائل استعمال میں نہیں لائے گئے ۔ یہاں بس اب ایک تعلیم ہی کا سہارا ہے ۔ جس کی بنیاد پر لوگ اپنی روزمرہ کی زندگی سکون کے ساتھ گزار سکتے ہیں ۔لیکن موجودہ حالات میں تعلیم بھی اب بحرانوں کا شکار ہے ۔اس لیے اس صوبہ پر رحم کیا جائے ۔ اس کے تعلیمی اداروں پر توجہ دی جائے ۔ ان کی جائز ضروریات کو پورا کیا جائے ۔ ان تعلیمی اداروں کو سیاست کی بھینٹ نہ چڑھایا جائے ۔ان کو سیاست سے دور رکھا جائے اور ان کے مستقبل کو داؤ پر نہ لگایا جائے ۔ اس لیے کہ مستقبل کی خوش حالی اور بدحالی دونوںکا دارو مدار ان یونیورسٹیوں پر ہے ۔وہ لوگ جو ان یونیورسٹیوں سے پڑھے ہیں ان کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ جس حیثیت میں بھی ہیں وہ اپنے ان مادر علمی کو بچانے کے لیے آگے آئیں اور ان کے بحرانوں کے خاتمے کے لیے اپنا کردار ادا کریں ورنہ ان کے بچے متاثر ہوں گے ۔یہ ادارے نیک اور اچھے لوگوں نے بنائے تھے اور ہزاروں قابل لوگوں نے ان کو اس مقام تک پہنچایا تھا ۔ اب یہ تباہ ہورہے ہیں ۔ اور ہم سب اس کا تماشہ دیکھ رہے ہیں ۔

مزید پڑھیں:  صنفی تفریق آخر کیوں ؟