سرکاری جامعات احتجاج کی نذر

سرکاری یونیورسٹیز کے ملازمین کا یونیورسٹی کیمپس پشاور میں جاری احتجاج شدت اختیار کرتا جارہا ہے ملازمین نے واضح کیا ہے کہ تنخواہوں میں حکومت کی جانب سے اعلان کردہ اضافہ کی ادائیگی تک نہ صرف قلم چھوڑ ہڑتال جاری رہے گی بلکہ احتجاج کا دائرہ کار مزید وسیع کیا جائے گا ۔سرکاری جامعات میں سٹاف اور تدریسی عملہ دونوں ہی اس وقت احتجاج شروع کرنے کے عادی ہو چکے ہیں جب سمسٹر شروع ہوتے ہیں بار بار احتجاج سے طلبہ کی تعلیم متاثر ہوتی ہے جس کے باعث چارہ دست والدین اب سرکاری جامعات میں بچوں کو داخل کرانے سے اجتناب برت رہے ہیں اور ان جامعات کی وقعت ختم ہوتی جارہی ہے جس کی دیگر بھی کئی وجوہات ہیںان کے مطالبات سے ہمدردی رکھنے کے باوجود ان کو یہی مشورہ دینا مناسب ہو گا کہ وہ احتجاج کو اس حد تک نہ لے جائیں کہ پہلے سے تباہی کا شکار جامعات مزید تباہی کے دہانے پرپہنچ جائیں ان کے مطالبات پرغور کرنے اوراس بارے مناسب اور قابل عمل اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ احتجاج ختم ہو اور جامعات کا تدریسی ماحول بحال ہو ۔ ہمارے ارباب اختیار کو اب یہ سوچنا ہو گا کہ سرکاری جامعات میں آئے روز جس قسم کے مسائل پر احتجاج معمول بن چکا ہے ان پر توجہ دے کر جامعات میں پھیلی ہوئی بے چینی کو دور کرنا ہے یا پھر ان جامعات کی بندش کے خطرات میں اضافہ کرنا ہے جب تک اساتذہ اور جامعات میں کام کرنے والا عملہ مطمئن نہیں ہو گا اس وقت تک جامعات میں تدریس کا عمل بھی متاثر رہے گا۔جامعات میں مستقل بنیادوں پر اساتذہ کی تعیناتی کی بجائے جس طرح عارضی بنیادوں پر تدریسی عملہ لے کر کام چلایا جارہا ہے اس کے باعث جامعات میں تدریس کا معیار بتدریج گرتا جارہا ہے سرکاری جامعات میں مالی بحران کی شدت سے متاثر ہونے والے اساتذہ سے اس امر کی توقع کم ہی کی جا سکتی ہے کہ وہ اپنے فرائض پر توجہ دیں گے ۔

مزید پڑھیں:  اب یا کبھی نہیں