اس قدر اسراف

گزشتہ دو کالم رشتے کے حوالے سے ہوئے تو اس مرتبہ شادی پر کالم لکھنا ہی تھا اتفاق سے دلہا کے ہیلی کاپٹر پر دلہن لانے کی خبر بھی آگئی تو سوچا کہ ایک جانب جہاں لوگ دو وقت کی روٹی کے محتاج ہو گئے ہیں کیسے دوسروں کو مستی سوجھتی ہے ۔ شادی بیاہ کی تقریبات سے لے کر سالگرہ کی تقریبات اور دیگر چھوٹی بڑی تقاریب میں جا کر بندہ اگر ایک ایک چیز کا جائزہ لیا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ غربت کوئی کہانی ہے اور ملک کی معاشی صورتحال کوئی افسانہ ہے جسے گھڑ کر خواہ مخواہ لوگوں کو ڈرایا جارہا ہے اتنی نزاکت اتنا بنائو سنگھار اس قدر تزئیں و آرائش قیمتی سے قیمتی فرنیچر سٹیج شاندار شادی ہال انواع و اقسام کے کھانے اور تکلفات ‘ہال سجانے اور سٹیج سجانے پر روپیہ پانی کی طرح بہایا جاتا ہے آسانی سے کمانے والے آسانی سے بہا بھی لیتے ہیں بلکہ میں تو کہوں گی کہ حرام کا پیسہ اور ناجائز کمائی کا جادو سر چڑھ بولتا ہے یہاں سے ذرا باہر نکلیں اور کسی عام سڑک پر گاڑی آئے اگر کالے شیشے والی عینک لگا کر تیز میوزک میں مست نہ ہوں قیمتی موبائل پر وقت ضائع نہ کر رہے ہوں تو ادھر ادھر نظر دوڑائیں تو ہر گزرنے والے کے چہرے پرتفکرات اور آنکھوں میں ویرانی نظر آئے گی بھوک و افلاس بھی نظرآسکتی ہے ورنہ مشکلات سے بھرپور زندگی کے اثرات اور جینے کی جدوجہدتو واضح طور پر محسوس کی جا سکتی ہے ایک عام آدمی کی زندگی کس قدر دشوار ہو چکی ہے کس طرح لوگ زندگی کی گاڑی کھینچ رہے ہیں کس طرح پیٹ کاٹ کر لوگ علاج معالجے کے لئے رقم نکالتے ہیں اور اسی طرح لوگ اپنے بچوں کو پڑھانے کے لئے کیا کیا جتن کرکے فیسیں بھرتے ہیں مگر یہ ان لوگوں کے سوچنے کی باتیں نہیں اور نہ ہی اس طبقے کے لوگوں کو یہ محسوس کرایا جاسکتا ہے وہ تو اپنی دنیا میں مگن ایک دوسرے سے بڑھ کر شان وشوکت کا مظاہرہ کرنے کی دوڑ میں لگے ہوئے ہوتے ہیں الا یہ کہ ان کی زندگی میں کوئی بدترین لمحہ آئے اور قدرت ان کو جھنجھوڑ کرغور و فکر کی طرف مائل کرے اور وہ عام انسانوں کی طرح سوچنے لگیں جن کی قدرت نے رسی دراز کر رکھی ہوتی ہے اور مہلت کا آخری لمحہ بھی غفلت میں گزرتا ہے ان کی زبان جب تالو کو لگ جاتی ہے تو جاگ پڑتے ہیں مگر مہلت کا وقت تمام شد ۔ یہ تو معاشرے کے دوطبقات کی کہانی ہے وہ جوسب سے محروم طبقہ ہے جو نان جوین کا محتاج ہے ان کے حالات کی تصویر کشی کرکے ان کی توہین کرنے کا کیا فائدہ ۔جو لوگ منہ میں سونے کا چمچ لے کر آئے ہوتے ہیں جن کے پاس حرام کا پیسہ ہوتا ہے ان کی خرمستیوں کا تذکرہ ہی کیا۔ لیکن مجھے شادی بیاہ ‘ نکاح اور اس طرح کی تقریبات میں استطاعت نہ رکھنے کے باوجود دوسروں کی نقالی کرنے والوں کی مذمت کرنی ہے کہ وہ دکھاوے کی ناک اونچی رکھنے کے لئے اپنی پوری زندگی بلکہ آنے والی نسل تک کو گروی رکھتے ہیں آنے والی نسل کو گروی اس طرح رکھا جاتا ہے کہ جو روپیہ پیسہ ان کی تعلیم پر خرچ ہونا چاہئے اس رقم سے ان کے والدین اپنی جھوٹی شان کے لئے لی ہوئی قرض کی رقم چکاتے ہیں ۔ وہ اگر ایسا نہ کرتے تو خود بھی آرام سے ہوتے اور اپنے بچوں کی تعلیم و صحت پر خرچ کرنے کے لئے بھی ان کے پاس کچھ ہوتا یہ کسی ایک کی کہانی نہیں بلکہ اکثر و بیشتر گھرانوں میں یہ دیکھا گیا ہے کہ لڑکایا لڑکی کی شادی کے لئے گھر تک بیچ دی جاتی ہے جس لڑکے کاگھر بسانا ہوتا ہے اسے گھر سے بے گھر کرنے کوگھر بسانا نہیں گھر بربادکرنا کہنا چاہئے رقم پاس ہو تو بھی اس طرح نہیں کرنی چاہئے مگر یہاں پھوٹی کوڑی نہیں اور شادی بیاہ پر اتنی رقم خرچ کر دی جاتی ہے کہ اس کی ادائیگی کرتے کرتے بچے بھی جوان ہوتے ہیں شادی یعنی نکاح جسے ہم اپنے ہاتھوں گھر بربادی کی نوبت لانے کا ذریعہ بنایاہوتا ہے سالوں اس کی تیاری ہوتی ہے مگر پھر بھی بھاری رقم ادھار اس لئے لینی پڑتی ہے کہ ہماری ہندوانہ معاشرے کی تقلید میں ہونے والی سومات کا کوئی شمار نہیں آج نکاح مشکل اورفرینڈ شپ چٹکی بن گئی ہے جب ایک رات کی دلہن لاکھوں روپے لگائے بغیر نہیں ملے گی تو لامحالہ انسانی فطرت اس طرف ہی متوجہ ہو گی جس طرف بہکانے بلکہ ہانکنے کے لئے شیطان تیار بیٹھا ہوتا ہے اس پہلو پر بات ہی عبث ہے اسلام میں نکاح صرف سادہ اور خاندان کے قریبی لوگوں کے سادہ سے اجتماع میں مسجد میں ہی منعقد نہیں ہوتی بلکہ حیرت ہوتی ہے کہ وسعت رزق کے لئے نکاح کی ترغیب ملتی ہے ہم اس کے بالکل الٹ کر رہے ہوتے ہیں ہمارے معاشرے میں ملازمت کاروبار ‘ روزگار بلکہ بہتر مالی حیثیت دیکھ کر رشتے کا سوچا جاتا ہے کمزور مالی حیثیت سب سے بڑا عیب ہے لڑکا خواہ کتنا بھی وجیہہ و شریف کیوں نہ ہو اگر اس کی مالی حیثیت کمزور ہے توان کے والدین ہی ان کا رشتہ لے کر کہیں جانے سے کترائیں گے باقی تو چھوڑیں ۔مگراسلام میں تونکاح کی ترغیب ملتی ہے اور کہاجاتا ہے کہ اگر ان کی مالی استطاعت کمزور ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان کوغنی کردے گا ایک واقعہ یاد آیا ایک صحابی نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حضور پیش ہوکر عسرت و تنگی کی شکایت کی آپۖ نے ان کو نکاح کا کہا انہوں نے غالباً عقد ثانی کی کچھ عرصہ بعد حضور اقدس ۖ نے پوچھا کہ تنگی دور ہوگئی ہے انہوں نے عرض کیا پہلے ہی طرح کے حالات ہیں آپۖ نے ایک اور شادی کا حکم دیا جسے انہوں نے بجا لایاکچھ عرصہ بعد آپۖ نے پھر پوچھا صحابی نے عرض کیا وہی حالات ہیں نہ ابتری ہوئی ہے اور نہ بہتری آپۖ نے ا رشاد فرمایا کہ شریعت کی آخری اجازت اور موقع کافائدہ اٹھا لو انہوں نے ایسا ہی کیا اور جب ان کا انتقال ہوا تو ان کے جنازے کو سونے سے تول کرصدقہ دیا گیا ۔ اس دور میں اور اس ایمان و یقین کے عالم میں اس واقعے کا تذکرہ شاید اچھنبا لگے جو اپنی جگہ دوسری ‘ تیسری ‘ چوتھی نہ کریں ایک ہی کریں لیکن بے جااسراف اور نمائش سے پرہیزکریں سادگی کے ساتھ نکاح کریں۔ لڑکا اور لڑکی کے والدین متفق ہوں تو ایسا ہونا ناممکن نہیں حضوراقدسۖ نے سادگی سے نکاح کو بابرکت نکاح کہا ہے اور ہم بابرکت نکاح کو توہین سمجھنے لگے ہیں اور خود اپنے ہی ہاتھوں خود کو مشکلات میں ڈالتے ہیں۔ ناک کٹ جائے گی لوگ کیا کہیں گے جیسے جملوں نے تو اس معاشرے کا ہی بیڑہ غرق نہیں کر رکھا ہے بلکہ ہمارے دین و ایمان اور عقیدے کو بھی آلودہ کر دیا ہے ہم نیکی برباد گناہ لازم کرکے پھر امید رکھتے ہیں کہ ہمارے معاملات بہتر ہوں ہمارے حالات میں تبدیلی آئے پہلے خودکوتو تبدیل کر لواس کے بعد بہتری کی توقع رکھواپنے ہاتھوں خود کو دریا برد کرنے والوں کو تو دریا بھی آسانی سے کنارے کی طرف نہیں اچھالتا بلکہ اپنے پیٹ میں غرق کردیتا ہے جولوگ ہیلی کاپٹر پر دلہن لا سکتے ہیں اگر وہ یہ سوچتے کہ یہ جہاز جن جن گھروںمیں جوان بیٹیاں بیٹھی ہیں اور مالی مشکلات کے باعث ان کی رخصتی و نکاح میں تاخیر ہو رہی ہے وہ اور ان کے والدین دیکھیں تو ان کے دل پرکیاگزرے گی تو وہ ہر گز ایسا نہ کرتے ۔وہ اس رقم سے ایک یتیم کی مدد کر سکتے تھے کسی نادار کاعلاج کرسکتے ہیں وہ اس رقم سے نیکی کے کسی کام میں سرمایہ کاری کرکے اللہ کوقرض دے سکتے تھے مگر یہ توفیق بھی کسی کو دی جائے تو ملے کاش ہم مسلمان ہونے کا دعویٰ کرکے ہندوانہ رسومات اختیار کرنے سے گریز کرتے اور سادگی کے ساتھ رشتہ و نکاح کے لوازمات و فرائض کی ادائیگی کرتے ہنس کی چال نہ چلتے تو آج نہ اپنی چال بھولتے اور نہ معاشرے کی یہ حالت ہوتی۔

مزید پڑھیں:  اب یا کبھی نہیں