میرے بیٹے کو سیاستدان ہونا چاہئے

گزشتہ کالم میں تان ہم نے اس بات پر توڑی تھی کہ اگلے یعنی آج کے کالم میں تجربے کی اہمیت پربات کریں گے اور اس کا کارن یہ تھا کہ پیپلز پارٹی کے جواں سال چیئرمین ان دنوں تجربہ کار سیاسی رہنمائوں کے خلاف خوب خوب دل کا غبار نکال رہے ہیں ‘ ان کا خیال ہے کہ بقول ان کے ”بڑے بابے سیاستدانوں” کو مزید قوم کی ”گردن پرسوار ” رہنے کی ضرورت نہیں ہے اور اب انہیں قوم کو معاف کرکے سیاست سے کنارہ کش ہوکرگھر بیٹھ کر اللہ اللہ کرنا چاہئے ‘ اور ہم نے اس نیک کام کے آغاز کے لئے انہیں یہ مشورہ دیاتھا کہ وہ سب پہلے اپنے بابا جانی یعنی آصف علی زرداری کو آماہ کریں تواس کے بعد دوسرے”سیاسی بابے” بھی شاید ان کی تقلید پرآمادہ ہوسکیں ۔ ہمارے اس مشورے کے بعد کئی سیاسی رہنمائوں نے بالکل اسی نوع کے مشوروں سے بلاول زرداری کونوازا ‘ مگر اس کا ان کی جانب سے یا پھر ان کے تجربہ کار والد محترم کی جانب سے تو کوئی جوابی ردعمل سامنے نہیں آیاتھا ‘ البتہ بلاول یہ مشورہ تسلسل کے ساتھ جاری رکھ کر سیاسی بابوں کو بزعم خود زچ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ‘ مگر دراصل بلاول جن بزرگ سیاسی حلقوں کی جانب اشارے فرما رہے ہیں وہاں سے کوئی جواب نہیں آرہا ہے اوربالکل ایک گہری خاموشی یوں چھائی ہوئی گویا ان کی آواز سائبریاکے برف آلود یخ بستہ ماحول میں اچھالے جانے والے پانی کے دھار کے ہوا میں شدید ترین منفی 50سینٹی گریڈ والی سردی میں پھینکے جانے کے ساتھ ہی برف کی طرح جم کر رہ جاتی ہے ‘ یوں گویا جو طنز وہ دوسروں پر کر رہے ہیں نہایت ہی کمال تجربہ کاری سے ” جواب ۔۔۔۔ باشد خموشی”اس طنزکو خاموشی کے پردے میں واپس کرکے بلاول کو جوابی وار سے ”مستفید” کیا جارہا ہے ۔ خیر جانے دیں ہم نے توگزشتہ کالم میں تجربہ کار کی بات کی تھی بات اسی ٹریک پرآگے بڑھاتے ہوئے چند گزارشات پیش کرنے کی اجازت چاہتے ہیں اس حوالے سے ساحر لدھیانوی نے کہا تھا کہ
دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں
جو کچھ مجھے دیا ہے وہ لوٹا رہا ہوں میں
بات کو آگے بڑھانے کے لئے ایک مختصر سی کہانی آپ کو سناتے ہیں روایت اس کہانی کی یوں ہے کہ دو خاندانوں میں ایک رشتہ طے ہوامقررہ دن بارات دور کسی گائوں میں لے جانے کے لئے تیاریاں جاری تھیں کہ لڑکی والوں نے ایک عجیب شرط عاید کر دی اور وہ یہ یہ کہ بارات میں صرف نوجوان ہی شامل ہوں گے کسی بزرگ کو ساتھ نہیںلایا جائے گاورنہ شادی کی تقریبات نہیں ہونے دی جائیں گی لڑکے والے سرجوڑ کربیٹھ گئے بعض بزرگوں نے اس شرط کولڑکے والوں کی توہین قرار دیتے ہوئے سخت ردعمل ظاہر کیا ‘ مگر بحث مباحثے کا کوئی نتیجہ نہیں نکل رہا تھا ‘ آخر ایک زیادہ سمجھدار بزرگ نے سب کو خاموش کراتے ہوئے کہا کہ اس کا تجربہ کہتا ہے کہ معاملہ صرف اس پابندی تک محدود نہیں رہے گا بلکہ وہاں پہنچنے کے بعد مزید شرائط لاگو کرکے بارات والوں کو مشکل میں ڈالا جائے گا ‘ اس لئے بہتر ہوگا کہ ایک بزرگ کو صورتحال سے نمٹنے کے لئے ایک بڑے بکس میں بری کے سامان کے ساتھ چھپا کر ضرورت پڑنے پر فوری مشورے کے لئے ضرور ساتھ رکھا جائے ‘ اس پر سب نے اتفاق کیا اور انہی بزرگ کوبڑے بکس میں چھپا کر ساتھ لے جایا گیا ‘ بارات پہنچنے کے بعد وہی ہوا جس کاخدشہ ظاہر کیاگیاتھا یعنی لڑکی والوں نے نئی شرط یہ عاید کر دی کہ سو باراتی سودنبے کھائیں گے تب ڈولی اٹھے گی اور دلہن کی رخصتی ہو گی یہ انوکھی شرط سن کر تو باراتیوں کو سانپ سونگھ گیا وہ آپس میں کھسر پھسر کرتے ہوئے بالآخر بکس میں بند بزرگ کے پاس جا کرانہیں اس شرط کی بابت بتانے لگے ‘ بزرگ نے کہا ‘ کوئی بات نہیں تم جا کر الٹا یہ شرط رکھو کہ ہم سو بندے سو دنبے ضرور کھائیں گے مگر ہماری بھی شرط ہے کہ دنبے ایک ایک کرکے ذبح کئے جائیں اور ان کو تکوں کی شکل میں سیخوں پر پکا کر باراتیوں میں ایک ایک سیخ کی صورت تقسیم کیا جائے گا’ جبکہ ایک دنبہ ختم ہوجائے تو اس کے بعد دوسرا دنبہ ذبح کرکے اسی طرح سیخوں میں پروکر پکایا جائے گا یوں ایک کے بعد ایک دنبہ پکا کر کھلایا جائے گا ‘ دلہن والوں نے یہ شرط مان کر دنبے یکے بعد دیگرے ذبح اور سیخوں پر پکانا شروع کئے جبکہ ہر دنبے سے بمشکل ہی سو سیخ تکے بن جاتے تھے ‘ اور ایک دنبہ کھانے کے بعد دوسرے دنبے کے پکنے تک باراتیوں کی بھوک مزید بڑھ جاتی دلہن والے بہ مشکل ہی دس پندرہ دنبوں کے تکے پکانے اور کھلانے کے بعد تھک کر پریشان ہو گئے اور آپس میں مشورہ کرنے لگے کہ اس طرح تو سو کیا دو سو دنبے بھی باراتی آسانی سے ہڑپ کر جائیں گے اور اس نتیجے پر پہنچے کہ ہونہ ہو ان کے ساتھ کوئی تجربہ کار بزرگ ضرور آیا ہے جوان کو مشورے دے رہا ہے ‘ یوں ان کے ایک بزرگ نے آکر باراتیوں سے کہا کہ ہم نہیں مانتے کہ شرط کے مطابق صرف جوانوں پرمشتمل باراتی ہی تمہارے ساتھ ہیں اور کسی بزرگ کے بغیر ہی تم لوگ آئے ہو اس لئے جب تک اس حقیقت کو تسلیم نہیں کرو گے ہم ڈولی اٹھانے نہیں دیں گے ‘اس پر ساتھ آئے ہوئے بزرگ کوبکس سے نکال کر سامنے لایا گیا جس کے مشورے سے دلہن والوں کی شرائط کوشکست کا سامنا کرنا پڑا ‘ اور یہ بزرگ کاتجربہ ہی تھا جوباراتیوں کی فتح پر منتج ہوا ۔ یہ سارا کمال اس بزرگانہ کمال اور زندگی کے تلخ وشریں تجربات کا تھا جوبارات میں اس وقت کے بقول شخصے لونڈوں لپاڑوں کی بہتات کے باجود مسئلہ حل نہیںہو رہا تھا اگر اس وقت وہ ایک بزرگ نوجوانوں کودرست سمت کی نشاندہی نہیںکرتا تو بارات بے نیل ومرام ‘ بغیر دلہن کی ڈولی کے واپس آجاتی ‘ پشتو میں ایک ضرب المثل ہے کہ” پیرتہ سپک مہ گورہ ‘ سترگو کہ بہ دے ازغے شی” یعنی بزرگوں کوحقارت سے مت دیکھو آنکھوں میں کانٹوں کی طرح چبھ جائیں گے ‘ دراصل جوانوں کی جتنی عمر ہوتی ہے بزرگوں کے پاس اس سے زیادہ تجربہ ہے اور اس حقیقت کا ہم قدم قدر پرنظارہ کرتے رہتے ہیں ‘ خود بلاول زرداری اگر اپنی شخصیت کاجائزہ لیں تو ان کے والد آصف زرداری نے انہیں سیاسی میدان میں لانچ کرنے سے پہلے اپنی جماعت کے کہنہ مشق ‘ زیرک اور گرگ باراں دیدہ قسم کے پارٹی رہنمائوں کے تجربات سے استفادہ کرنے کے لئے ان کی زیر تربیت رکھا ‘ انہیں شاید وہ دن بھول گئے ہیں یا وہ یاد رکھنا ہی نہیں چاہتے جب پارٹی کی ایک خاتون رہنما انکی زبان کے حوالے سے محاورةً شین قاف درست کرنے کی ا نتھک کوشش کرتی رہتی تھیں ‘ ورنہ ان کے مخالفین تو ان کی ”گلابی اردو” کا مذاق اڑایا کرتے تھے ‘ اگرچہ زبان ان کی اب بھی قابل”تربیت ” ہے تاہم اب وہ بہت کچھ سیکھ گئے ہیں اورشاید اسی لئے شیر اور بلی کی تربیت کے حوالے سے مشہور کہانی کی طرح خود کو ”شیر”سمجھ کر بلی مانو پر”حملہ آور” ہو رہے ہیں لیکن بلی نے جس طرح شیر کو سب گر سکھا کر آخری گر اپنے پاس ہی رکھا او خود کو شیر کے حملے سے محفوظ بنالیا تھا ‘ تو جن بزرگوں کو موصوف پرانے بابے قرار دے کر میدان سیاست سے خارج کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ان کے پینتروں سے خود کو بچانے کی فکرکریں کہ ابھی توان کے طنزیہ جملے بازی کا سنجیدہ سیاسی حلقے کوئی سخت جواب ہی نہیں دے رہے ہیں ‘ ورنہ ان کے ساتھ بھی ان کے نانا ذوالفقار علی بھٹو کے ایک جملے پر دوستانہ انداز میں جس طرح میر غوث بخش بزنجو نے جوابی جملہ کسا تھا(جس کا یہ حقییر فقیر خود چشم دید گواہ ہے ) یعنی جب ذوالفقار علی بھٹوصدرپاکستان تھے کہ تب تک نہ سقوط ڈھاکہ کے بعد باقی کے پاکستان کاآئین بناتھا ‘ نہ بھٹو نے نئے آئین کے تحت وزیر اعظم کی حیثیت سے حلف اٹھایا تھا اور وہ تب(صوبہ سرحد) کے گیارہ روزہ دورے پراپنے ساتھ سیاسی قیادت کولے کر صوبے کے مختلف علاقوں میں جلسوں سے خطاب کرتے پھر رہے تھے’ ان کے اس دورے کو راقم نے ریڈیو پاکستان کے نمائندے کے طور پر ریکارڈ کرکے نشر کروایا تھا ‘ اس دورے کے دوران ایک جگہ جب ابھی کھانے کا انتظار ہو رہا تھا کسی صحافی کے استفسار پرجب بھٹو مرحوم نے کہا کہ ان لوگوں کو ساتھ رکھ کر میں انہیں سیاست سکھا رہا ہوں تو گورنر بلوچستان میرغوث بخش بزنجو نے لقمہ دیتے ہوئے کہا کہ جی ہاں جس کے والد نے سیاست ہم سے سیکھی اب کیا وہ ہمیں سیاست کے رموز و اسرارسکھائے گا؟ اب یہ توبلاول زرداری کے اپنے اوپر منحصر ہے کہ خود اپنی ہی پارٹی کے سینئر رہنمائوں(بقول بلاول سیاسی بابوں) سے سیاست کی الف بے سیکھنے کے بعدانہی بزرگ رہنمائوں کو مزید برداشت کرکے قدم قدر پر آگے چل کر ان سے رہنمائی لیتے ہیں ‘ یاپھر مخالف تجربہ کار سیاسی رہنمائوں کو بزرگی کے طعنے مارتے ہوئے خود اپنے سیاسی اتالیفوں کو بھی سیاست ترک کرنے کا مشورہ دیتے ہیں ‘ اگر انہیں اس حقیقت کا ادراک نہیں کہ بزرگوں کے حوالے سے محاورہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے بال دھوپ میں سفید نہیں کئے ہوتے بلکہ سرد وگرم چشیدہ حالات کی بھٹی سے گزر کر یہ لوگ اپنے اپنے شعبوں میں کندن بن چکے ہیں ‘ یہ وہ تجربات ہی ہیں جن کی وجہ سے آج آصف علی زرداری کولوگ سیاست کے میدان کے شہسواروں میں اہم مقام دیتے ہیں ‘ اور جس کا ثبوت مختلف مواقع پران کی سیاسی چالوں سے حالات میں تبدیلی لانے کے کامیاب تجربات کے نتائج سے ملتا ہے ۔ بلاول کویقینا ملکی سیاست میں اہم عہدوں پر پہنچنے اورملکی قیادت پر تصرف حاصل کرنے کا نہ صرف خواب دیکھنے بلکہ اس خواب کی عملی تعبیر سے بھر پور استفادہ کرنے کا پورا پورا حق ہے ‘ تاہم اگر وہ سوچ سمجھ کر قدم اٹھائیں اور سب کو ساتھ لے کر چلنے کی حکمت عملی اختیار کریں تو اس کے مثبت نتائج نکلنے میںدیر نہیں لگے گی ‘ جبکہ بلاوجہ اپنے مخالفین کی تعداد میں اضافہ کرنے کے نتائج شاید کچھ اور رخ اختیار کریں مخالفین کو تو ایک طرف چھوڑیئے ”سیاسی بابوں” کے خلاف بات کرنے سے خود ان کی پارٹی کے بزرگ بابے بھی زد میں آتے ہیں اور شاید یہ ان پارٹی رہنمائوں کے نزدیک بھی کوئی حوصلہ افزاء امر نہ ہو ‘ ویسے ہی تو ”بزرگوں” نے نہیں کہا کہ پہلے تولو پھربولواور اب تو خود بلاول کے اپنے ہی والد(بزرگ بابے) آصف زرداری یہ کہہ کر ان کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے کہ”بلاول ا بھی تربیت یافتہ نہیں کچھ وقت لگے گا ‘ اور انتخابات میں پارٹی ٹکٹس میں دوں گا” یعنی بقول مرحوم نیاز سواتی
میرا بیٹا بات سچی ایک بھی کرتا نہیں
میرے بیٹے کو سیاستدان ہونا چاہئے

مزید پڑھیں:  موبائل سمز بندش ۔ ایک اور رخ