ذریعہ معاش کا انتخاب

ایک اچھا کیریئر منتخب کرنے کا مطلب یہ ہے کہ انسان ایسا ذریعہ معاش اختیار کرے جوآگے چل کر عملی زندگی کامیابی کے ساتھ گزارنے میں مدد گار ثابت ہو اس لئے ترقی یافتہ ممالک میں جہاں کیریئر کا ونسلگ کی اہمیت پر زور دیا جاتا ہے وہیں کیریئر کی منصوبہ بندی بھی ہوتی ہے ۔ بیرونی دنیا میں توسکولوں کے اساتذہ آٹھویں جماعت تک طلبہ کے رجحان دیکھ کر ان کو مشورے دیتے ہیں اور بچوں کے والدین بھی ان کے مشوروں کو اہمیت دے کر بچے کے رجحان کے مطابق کسی شعبے کی طرف مائل دیکھ کر بچے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ وہ اپنی دلچسپی کا میدان چنے لیکن ہمارے ہاں اولاً اس کا موقع ہی نہیں بلکہ اس کا الٹ ہوتاہے بہرحال وہاں مواقع کے ساتھ ساتھ ہر شعبے اورمہارت کی اپنی اہمیت اور پیشے کی عزت ہوتی ہے وہاں کسی بھی پیشے کوچھوٹا اور برا نہیں سمجھا جاتا اور معاوضے میں بھی زیادہ فرق نہیں ہوتا ہمارے ہاں توالیکٹریشن ‘ پلمبر ‘ ترکھان اور اس جیسے ہنرمندی کے پیشے اختیارکرنے کی حوصلہ شکنی کا دستور ہے ان شعبوں کو ان پڑھ اور تعلیم سے محروم افراد کا پیشہ سمجھا جاتا ہے اس لئے ہنر مند افراد کی معاشرے میں حیثیت و مقام دیکھ کر یہ پیشے اختیار کرنے کا کوئی سوچنا بھی نہیں اور نہ ہی یہ کسی ترجیحی پیشے کی فہرست میں شمار ہوتے ہیں بلکہ اس جانب آنے والے تقریباً مجبوری کے عالم میں اور سوچے سمجھے بغیر ہی آتے ہیں اگر کوئی طالب علم ان پیشوں میں دلچسپی کااظہار کرے بھی تو والدین اور معاشرے سے کبھی بھی اس کی حوصلہ افزائی نہیں ہوگی اس کی اپنی وجہ بھی بہرحال ہے کہ ان ہنر مندوں کو جومعاوضہ ملتا ہے وہ گزارے کا حامل بھی نہیں ہوتا جبکہ ہمارے ہاں کی بہ نسبت اگر لندن میں کوئی اس طرح کا ہنر مند ہو تو پھران کا معاوضہ معقول ہی نہیں معاشرے میں بھی ان کا مقام و مرتبہ کمتر کا نہیں ہوگا ہمارے ہاں اعلیٰ ہنر مندوں کی قلت اور اناڑی افراد کی وجہ سے کام کا خراب معیار اور پیش آنے والے مسائل کی وجہ بھی یہی ہے ۔ میں نے لندن کی مثال اس لئے دی کہ وہاں میرے ایک جاننے والے سے ہوٹل کے باتھ روم کا فلش ٹوٹ گیا وہ شوروم گئے اور مطلوبہ سامان خریدا اور وہاں کاریگر ہمارے ہاں کی طرح عام نہیں ملتے بلکہ متعلقہ دکانوں ہی کی وساطت سے ملتے ہیں ا نہوں نے دکاندار کی وساطت سے کاریگر کوساتھ چلنے کا کہا دکاندار سمجھ گیا کہ نووارد کو یہاں کے معاوضے کا علم نہ ہو گا سو گاہک سے کہا کہ کاریگر سے پہلے بات تو کرلیں دکاندار نے کہا کہ فلش کا بٹن ہی تو شگانا ہے زیادہ کام نہیں لیکن جب معلوم کیا تو ہوش اڑ گئے کہ ان کا معاوضہ بہت زیادہ تھا اور اس مقررہ معاوضے سے کم پر کوئی اور دستیاب بھی ہونے کا امکان نہ تھا ہمارے ہاں کیا ہوتا ہے آپ سب کو معلوم ہے البتہ ہمارے ہاں جس جس کو سمجھ ہوتی ہے وہ اچھے معاوشے پر اچھے ہنر مند کی تلاش ضرو ر کرتا ہے مگر پھر بھی ہنر مند کا زیادہ سے زیادہ معاوضہ بھی بہت بھاری نہیں ہوتا اس لئے کہ ان کو معلوم ہے کہ کوئی بھی اناڑی الٹا سیدھا کام کرکے اس سے کم معاوضہ لے گا اور وہ بیٹھا ہی رہ جائے گا یہ ناقدری ہی ملک میں ہنر سیکھنے کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے بہرحال ماہرین کے مطابق آٹھویں جماعت ہی سے کیریئر پلاننگ شروع کرنی چاہئے مگر ہمارے ہاں شاید ہی ماہرین کی اس بات کو تسلیم کیا جائے کہ اس سطح سے کیریئر بنانے کا راستہ چن لیا جائے اور ایسا ممکن ہوسکتا ہے مشکل امر یہ ہے کہ ہمارے ہاں طلبہ کا کم اور والدین و سرپرستوں کا فیصلہ مقدم ہوتا ہے اس کی وجہ طالب علموں کی لاعلمی اساتذہ کی نااہلی اور والدین و سرپرستوں کی جہالت ہے ہمارے ہاں آج بھی میڈیکل اور انجینئرنگ ہی کا شعبہ اولین ترجیحات میں سرفہرست ہیں لے دے کے ثانوی دلچسپی کا شعبہ آئی ٹی کو سمجھا جارہا ہے اور بس ۔ یہی وجہ ہے کہ ہر بچہ ڈاکٹر اور انجینئر بننے کا خواب دیکھ رہا ہوتا ہے اور سخت ترین مقابلے کے باعث بہت تھوڑے طالب علموں کوجگہ ملتی ہے ابھی ایم ڈی کیٹ کے نتائج آئے ہیں خیبر پختونخوا میں دیکھیں کہ کتنے طلبہ نے ٹیسٹ دیئے اور کتنے میرٹ پر آئے اور سیٹیں فل ہو گئیں۔اب ناکام طلبہ یا تو پھر سے ضد پکڑ کر دوبارہ تیاری میں لگ جائیں گے یا پھر دیگر شعبوں کا رخ کریں گے یوں ان کی سوچ منتشر اور ناکامی کا احساس ان کو زندگی بھر جینے نہیں دے گا اس لئے کہ انہوں نے صرف ڈاکٹر بننے ہی کا جنون سوار کیا ہوا ہوتا ہے۔ اس کی سوائے اس کے کوئی اور وجہ نہیں کہ انہوں نے غیر حقیقت پسندانہ سوچ اپنائی تھی اور ان کا طرز عمل حقیقت پسندانہ نہ تھا۔ وہ دل و دماغ کھلے رکھتے اور مختلف شعبوں کے بارے میں معلومات حاصل کرکے پہلی ‘ دوسری اور تیسری ترجیح کے لئے خود کو تیار رکھتے تو عین وقت پر ان کو اس طرح کی صورتحال سے دو چار ہونا نہ پڑتا۔ طلبہ کو خود فیصلہ کرنا چاہئے کہ انہوں نے سائنس ‘ کمپیوٹر سائنس ‘ انجینئرنگ ‘ آرٹس یا کامرس پڑھنا ہے یا پھر آرمی میں جانا ہے اس طرح کے دیگر شعبے کا انتخاب کرنا ہے مثلاً مرچنٹ نیوی وغیرہ وغیرہ کیریئر پلاننگ کے لئے طلبہ کو ا پنا جائزہ لینے اور خود کو جاننا بھی بہت ضروری ہے انہیں چاہئے کہ وہ اپنے شوق ‘ دلچسپیوں ‘ مہارت اور خصوصیات اور اقدار کو پہچانیں اور ان کی ایک فہرست بنا کر اس سوال کا جواب ڈھونڈیں کہ انہیں کونسے کام پسند ہیں۔بدقسمتی سے ہمارے ہاں ایسا نہیں ہوتا اور نوجوان یا تو اپنی ضد یا پھر ناسمجھی کے باعث اپنی صلاحیت اور رجحان کے مطابق فیصلے نہیں کرتے اس کی بڑی وجہ نفسیات کا بھی ہوتا ہے جو بعض بلکہ اکثر شعبوں میں ضروری ہوتا ہے میں اپنے عزیزوں میں ایک نوجوان کودیکھ کر اکثر سوچتی تھی کہ وہ فورسز اور اس سے متعلقہ اداروں کے لئے موزوں ہے کسرتی جسم والا نوجوان حساس ادارے کے لئے فٹ ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ سپورٹس کا دلدادہ اچھی صحت کا حامل ہائیکنگ اورٹریکنگ میں مہارت اور سخت جاں سب سے بڑھ کر یہ کہ ان سے کوئی بات نکلوانا ناممکن اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ بلا کا نشانہ باز جو حد نظر اور بندوق کی گولی کی پہنچ میں چھوٹی سی چھوٹی چیز پہلی ہی فائر میں نشانہ بنا لیتا ہے۔مگر جب مزید معلومات لیں تو پتہ چلا کہ وہ کسی کی سننے والا نہیں اور غصیلا اور جذباتی بھی باغی صفت اورمن موجی ہے ممکن ہے تربیت اور ٹریننگ کے دوران وہ ان خامیوںپرقابو پا لیتا یہ تو ایک مثال تھی اس طرح کے نجانے کتنے نوجوان جو تھوڑی سی توجہ اور رجحان سازی پر اثاثہ بن سکتے ہیں ناقدری کی نذر ہوجاتے ہیں ۔ مشاہدے کی بات ہے کہ طلبہ کو ایسے مضامین لینے پر مجبور کیاجاتاہے کہ جس کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ اس میں ملازمت کے بہتر امکانات ہوں ہمیں اس کی بجائے یہ سوچنا چاہئے کہ اگر کوئی بچہ کسی مضمون میں دلچسپی نہیں رکھتا تو اس کے لئے اس مضمون میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ بہت مشکل ہوگا ایسے میں ممکن ہے کہ وہ پڑھائی ہی چھوڑ دے یا پھراپنے شعبے میں کامیاب نہ ہوسکے اس کی بجائے اگربچہ اپنی پسند کے کسی مضمون کا انتخاب کر لے تو اس میں کامیابی کا امکان رجحان رکھنے کے باعث زیادہ ہو گااور آگے بڑھنے کے مواقع سے بھی مستفید ہو سکے گا۔

مزید پڑھیں:  مالیاتی عدم مساوات اورعالمی ادارے