دہشت گردی اور انتخابات

ملک کے اندر بالعموم اورصوبہ خیبرپختونخوا میں بالخصوص دہشت گردی کے واقعات کا سلسلہ جاری ہے ‘ کہیں سکیورٹی اداروں کے اہلکاروں کے خلاف حملے جاری ہیں جن میں قیمتی جانیں ضائع ہو رہی ہیں توکہیں عام عوام کے خلاف دہشت گرد حملے کرکے مذموم مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں گزشتہ روز ورسک روڈ پرپولیس وین پرناکام حملے کے نتیجے میں عام شہری اس حملے کی زد میں آنے سے شہر میںخوف و ہراس پھیل گیا ‘ دہشت گرد اگرچہ خبروںکے مطابق پولیس وین کونشانہ بناناچاہتے تھے تاہم سی سی ٹی وی فوٹیج سے پتہ چلا کہ سڑک کنارے نصب شدہ طاقتور بم اس وقت زور داردھماکے سے پھٹا جب پولیس وین وہاں سے گزری تو چند لمحوں بعد دھماکہ ہوا ‘جس کی زد میں ایک نجی بنک کی عمارت ‘ کئی دکانیں اورقریب سے گزرنے والی گاڑیوں کونقصان پہنچا جبکہ کئی راہگیر اس حملے سے متاثر ہوئے ‘ جن میں سے دوافراد کی حالت نازک ہے ‘ ادھرنگران وزیراعلیٰ جسٹس ریٹائرڈ سید ارشد حسین کی صدارت میںامن وامان کی صورتحال سے متعلق ایک اہم اجلاس میں اس بات کا اعادہ کیاگیا کہ امن وامان برقرار رکھنے پرکوئی سمجھوتہ نہ نہیں کیا جائے گا ‘امن و امان برقرار رکھنا موجودہ حکومت کی اولین ترجیح ہے ‘ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ پولیس کی استعداد بڑھانے کے لئے فوری طور پرقابل عمل پلان ترتیب دیا جائے جبکہ صوبائی حکومت اس پلان پر عمل درآمد کے لئے ہر ممکن تعاون فراہم کرے گی اور پولیس جوانوں کے مورال کو ہر قیمت پر بلند رکھا جائے گا ‘ ادھر امن و امان کودرپیش چیلنجز کے حوالے سے ملک میں آٹھ فروری کوہونے والے انتخابات پر مختلف حلقوں کی جانب سے کئی سوال اٹھنا شروع ہوگئے ہیں اورالیکشن کمیشن کوعام انتخابات ملتوی کرانے کے لئے اب تک 17درخواستیں موصول ہو چکی ہیں جبکہ سیاسی حلقوں کے اندربھی اس حوالے سے بحث چھڑ چکی ہے ‘ مولانا فضل الرحمن نے گزشتہ روزاسلام آباد میںمیڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم انتخابات میں ہر وقت جانے کے لئے تیار ہیں تاہم انتخابات کا ماحول فراہم کرنا چاہئے ‘ دوصوبے دہشتگردی کی لپیٹ میں ہیں ‘ کیا انتخابا ت ہوسکتے ہیں؟ دیگر جماعتیں ہر صورت انتخابات چاہتی ہیں نون لیگ پربعض مخالف سیاسی پارٹیاں انتخابات سے ”فرار” کے الزام لگا رہی ہیں ‘ حالانکہ نون لیگ کی جانب سے ایسا کوئی بیانیہ ابھی تک سامنے نہیں آیا ‘ اور مولانافضل الرحمن بھی صرف حالات کی تصویرسامنے لا رہے ہیں ان کے بیان میں یہ بات کہیں موجود نہیں کہ جمعیت علماء اسلام انتخابات کاالتواء چاہتی ہے ‘ اس حوالے سے نون لیگ اور جمعیت کے درمیان باہمی تعاون سے انتخابی میدان میں اترنے اورسیٹ ٹو سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی خبریںبھی سامنے آچکی ہیں تاہم دوصوبوں یعنی خیبر پختونخوا اور بلوچستان اس وقت دہشتگردی کی جس صورتحال کی جانب مولانا فضل الرحمن نے اشارہ کیا ہے اس کی حقیقت سب پر واضح ہے اور ضرورت اس امرکی ہے کہ نہ صرف وفاقی سطح پر بلکہ محولہ دونوں صوبوں میں امن و امان کی بحالی اوراسے برقرار رکھنے پر بھرپور توجہ دی جائے ‘ 2018ء کے انتخابات سے پہلے بھی ان دونوں صوبوںمیں جس طرح اے این پی ‘ جمعیت علمائے اسلام کے خلاف دہشت گردی واقعات ہوئے تھے جبکہ دیگر جماعتوں سے دہشت گردوںنے کوئی تعرض نہ رکھتے ہوئے صرف اے این پی اورجمعیت کے خلاف دہشتگردی جاری رکھی تھی اور انہیں انتخابی سرگرمیوں کی اجازت نہیں دی گئی تھی جسکے نتائج دنیا دیکھ چکی ہے مستزاد آر ٹی ایس بٹھا کرصرف ایک خاص جماعت کو”جیت” پلیٹ میں سجا کردے دی گئی تھی ‘ اگر اب کی بار بھی ایسی ہی صورتحال نے جنم لینا ہے توپھرایسے انتخابات کوکون تسلیم کرے گا؟جمعیت کے رہنما مولانا فضل الرحمن کی شکایت پربھرپورتوجہ دینا لازمی ہے اور وفاقی ہویاصوبائی حکومتیں امن و امان کوبرقرار رکھنے اور تمام جماعتوںکو یکساں طورپرسیاسی اور انتخابی سرگرمیوںکے لئے پرامن ماحول مہیا کرنا ان کی بنیادی ذمہ داری ہے اور 2018ء کے انتخابات کے دوران درپیش حالات کااعادہ کسی بھی صورت نہیں ہونا چاہئے ‘ اس سلسلے میںالیکشن کمیشن آف پاکستان کو بھی صورتحال کاجائزہ لے کر متعلقہ حکام کواپنی ذمہ داریوں کا احساس دلانے کے لئے آگے آنا چاہئے ‘ جبکہ تمام وہ سیاسی جماعتیںجو انتخابی میدان میں اترنا چاہتی ہیں وہ بھی اس معاملے میں متعلقہ اداروں اور حکام کے ساتھ مل کرپرامن ماحول کے قیام میں اپنا کردارادا کریں یعنی وہ اپنے کارکنوں کونہ صرف پرامن جلسے جلوسوں کے لئے تیار رکھیں بلکہ انتخابی سرگرمیوں کے دوران اپنی صفوں پرگہری نگاہ رکھنے کی بھی تلقین کریں اورایسے عناصر پرکڑی نگاہ رکھیں جوکسی بھی طور پرامن ماحول کوخراب کرنے اور انتخابات کے دوران افراتفری پیدا کرکے امن و امان کا مسئلہ کھڑا کرنے کی سازش کرنا چاہتے ہوں ‘ امن وامان کے قیام اور انتخابی عمل کو سکون سے تکمیل تک پہنچانے کی ذمہ داری ہم سب کافرض ہے ‘ اورایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرکے ہم اس اہم قومی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہوسکتے ہیں۔

مزید پڑھیں:  نان کسٹم پیڈ گاڑیوں پر پابندی