ہوائے شہر مجھے بولنے کا موقع دے

پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا ہے ‘ حالات میں بدلائو کو واضح طور پر آسانی سے دیکھا جا سکتا ہے یعنی اس کے لئے نہ کسی عدسے کی ضرورت ہے نہ کسی راکٹ سائنس کی ‘ بلکہ ذرا پیچھے مڑ کر دیکھیں تو علامہ اقبال کے اس شعر پر بھی شک سا ہونے لگتا ہے جب انہوں نے کہا تھا کہ
گریزاز طرز جمہوری غلام پختہ کار شو
کہ از مغز دو صدخر فکرانسانی نمی آئی
تاہم حیرت اس بات پربھی ہے کہ جمہوریت کے خلاف بات کرتے ہوئے اس نظام کی خامیاں اور خرابیاں گنوانے کے باوجود برصغیر کی آزادی کے لئے مغربی جمہوریت ہی کو لازمی قرار دیتے ہوئے برصغیرکے تمام سیاسی رہنمائوں اور جماعتوں نے اسی نظام کے ذریعے آزادی بھی حاصل کی اور ازاں بعد بھارت ہو یا پھرپاکستان ‘ ہر دو مملکتوں نے جمہوریت ہی کو ناگزیر قرار دیا اگرچہ پاکستان میں طالع آزمائی کاغلبہ رہا اور جمہوریت کے ساتھ کھلواڑ کرتے ہوئے اس نظام کی مختلف شکلوں کونافذ کرکے عوام کے جمہوری حقوق چھیننے کی کامیاب کوشش کیں ‘ یہ الگ بات ہے کہ ہر پھر کر ہر چند برس بعد اپنی غلطی کا احساس کرتے ہوئے کمزور ہی سہی اقتدار عوام کے نمائندوںکو سونپ کراس جنگی حکمت عملی کو اختیار کیا جو جنگی میدانوں میں اس وقت اختیار کی جاتی ہے جب آگے بڑھنے کے لئے تھوڑا سا پیچھے آنا پڑتا ہے’ جسے عرف عام میں Retreat and advance کہتے ہیں ‘ مگر اب اس قسم کی حکمت عملی بھی کامیاب نہیں ہوتی کہ اب یہ جونئی نسل ہے اس نے اس قسم کی تگڑ م بازیوں کو تسلیم کرنے کی سوچ تج دی ہے اور ایک شاعرہ ریحانہ قمر کے الفاظ میں کچھ یوں سوچ رہی ہے کہ
نئے سفر کے لئے فیصلے کاموقع ہے
ہوائے شہر مجھے بولنے کا موقع دے
دکھائوں گی تجھے خوشیوں کا کاسنی موسم
توایک بارمجھے پھیلنے کا موقع دے
نئی نسل کو آپ چاہیں تو ”چکنے گھڑے”کہہ دیں اس سے ان کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑنے والا انہوں نے اپنی ہی کرنی ہے اب یہی دکھ لیں حالیہ انتخابات کے بعد کچھ ایسی ہی گھڑمس پڑی ہوئی ہے نتائج کو بقول علامہ آپ لاکھ مرتبہ ”فکر انسانی” کے اس کلئے پرتولنے کی کوشش کریں جس کااظہار ان کے محولہ بالاشعرمیں کیا گیا ہے مگر” نہ منی نہ منی طوطا رام نہ منی” کے اس مشہور مقولے کے اندر موجود ہے جوکسی زمانے میں ریڈیو پاکستان پشاور کے ایک خوبصورت پشتو پروگرام ”دا یارانو خبرے اترے”کے اندر ایک جنگل ”Jingle” کے طور پر شامل ہو تا تھا ۔ اس لئے جمہوری اقدار کی یہ تبدیل شدہ صورتحال ہر طرف چھائی ہوئی دیکھی جا سکتی ہے جس نے بڑے بڑے برج الٹ دیئے ہیں عوام کے نکتہ نظر کو رد کرنے والی شخصیات اوندھے منہ گرے ہوئے اپنے ”زخم” چاٹتے دیکھے جا سکتے ہیں تاہم بعض باکردار افراد نے کم از کم اخلاقی جرأت کو ہاتھ سے نہ جانے دیتے ہوئے نہ صرف اپنی شکست تسلیم کی ہے بلکہ اپنے پارٹی عہدوں سے استعفیٰ دینے کا بھی اعلان کر دیا ہے جس نے ہمیں ایک بہت بڑے لیڈر کی یاد دلا دی ہے یعنی آج سے کئی برس پہلے جب خان عبد الولی خان کو انتخابات میں شکست دلوائی گئی ‘ جی ہاں انہیں شکست ہوئی نہیں تھی بلکہ اس وقت مبینہ طور پر نواز شریف کی خواہش اور ان کے سیاسی اتحاد جس کی پشت پناہی ایک افغان رہنما بھی کر رہا تھا اور علاقے میں جعلی شناختی کارڈوں کے حامل افغان مہاجرین کی مدد اور محولہ رہنماء کی ڈالرمیں کمائی ہوئی ”افغان جنگ” سے حاصل خزانوں کے منہ کھول کر جس طرح ولی خان کو شکست سے دو چار کیا گیا یہ تاریخ ہے اور ”شکست” کے بعد ولی خان نے انتخابی سیاست سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے کنارہ کشی اختیار کر لی ‘ ایسا کردارکسی کسی کے نصیب میں ہوتا ہے ‘ اب ایک بار پھراے این پی ہی کے ایک اہم رہنما سابق وزیر اعلیٰ امیر حیدر خان ہوتی نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں پر شکست کو تسلیم کرتے ہوئے پارٹی کے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان جس ” جرأت رندانہ” سے کیاہے اس پر ولی خان ہی کے کردار کی چھاپ نظر آتی ہے حالانکہ چاہئے تو یہ کہ ان کی جماعت کے صوبائی صدربھی ایسی ہی جرأت کا اظہار کرتے ہوئے پارٹی کی جان چھوڑ دیں ‘ مگر ایسا نہیں ہو گا کیونکہ پھرپارٹی پران کے خاندان کا قبضہ ختم ہونے کا اندیشہ پیدا ہوگا ‘اور چونکہ ہمارے ہاں اکثر بلکہ زیادہ سیاسی جماعتیں جمہوریت کے نام پر ”خاندانی کلب” بن چکے ہیں اس لئے ان پر قابض سیاسی خانوادے اس اخلاقی جرأت سے کوسوں دور ہیں جو جمہوریت کی تعریف پرپوری اترتی ہیں اس وقت صورتحال یہ ہے کہ محولہ جماعت جس کا ذکر مذکورہے ‘ پارٹی کے درجے سے کہیں نیچے اتر کر ایک پریشر گروپ میں تبدیل ہو چکی ہے اور باچا خان کی سیاسی سوچ کی وارث (کسی زمانے میں پورے صوبے میں جس کا طوطی بولتا تھا) جماعت اب سمٹ سمٹا کرکسی کونے کھدرے میں آخری سانسیں لیتی دکھائی دیتی ہے ‘ اس حد تک پہنچانے کا ذمہ دار کون ہے اس پر خود جماعت کے رہنمائوںکو سوچنا چاہئے ۔
آپ ہی اپنی ادائوں پہ ذرا غور کریں
ہم اگر عرض کریں گے توشکایت ہو گی
صوبے میں دوسری ہزیمت ایک اور سابق وزیر اعلیٰ بلکہ دو وزرائے اعلیٰ کے مقدر میں آئی ہے یعنی پرویز خٹک اور محمود خان ان میں سے محمود خان نے تواپنے ووٹروں سے شکایت کرتے ہوئے دل کی بھڑاس نکال لی ہے تاہم پرویز خٹک جس نے اپنی سابق جماعت تحریک انصاف کے بانی پراپنے جلسوں وغیرہ میں الزامات کی بوچھاڑ کر دی تھی ہم نے بادل ناخواستہ اور انتہائی مجبوری میں ان کے کردار کے حوالے سے اکا دکا جملے اپنے کالم میں لکھتے ہوئے گزارشات کی تھیںاور زیادہ کھل کر کچھ کہنے سے گریز ہی کو وتیرہ بنارکھا تھا مگرافسوس اس بات پر ہوا کہ ان کی گفتگو پرایک محاورہ ہمیشہ پوری طرح منطبق آتا رہا یعنی آسمان پہ تھوکا منہ پر ‘ ہم خود بھی ان کے ”ممدوح” کی پالیسیوں سے کبھی متفق نہیں رہے اور ضرورت کے وقت ان پالیسیوں کے ناقد بھی رہے تاہم جس ”طوطا چشمی” کا اظہار خٹک صاحب نے نئی جماعت بنا کر اپنے سابق رہنما کے حوالے سے اختیار کی اس پرانہیں زبان کھولنے سے پہلے اس آئینے کو ضرور دیکھ لینا چاہئے تھا جس میں خود ان کا(؟) چہرہ صاف صاف دکھائی دیتا تھا ‘ اس حوالے سے بطور وزیر اعلیٰ ان کے کردار کا جائزہ لیا جائے تو جتنی ناکردنیاں پارٹی چیف کے خلاف الزام تراشی کرتے ہوئے موصوف نے ان پر ”کیچڑ” پھینکنے کی کوشش کی ان تمام کر دنیوں کی ذمہ داری سے یہ خود کو کبھی بری الذمہ قرارنہیں دے سکتے اور ان تمام ”اقدامات”میں برابر کے شریک ہیں ‘ ان میں اگر اخلاقی جرأت ہوتی تو یہ اقتدار کے دنوں ہی میں اپنے ”چیف” سے اختلاف کی جرأت کرتے ہوئے وزارت اعلیٰ کی کرسی کولات مار کر الگ ہو جاتے ‘ مگر تب مفادات کی ٹوکری میں اپنے خاندان کے لئے ”اقتدار کے انڈوں” کی بندر بانٹ کیسے کرتے بعد میں مرکز میں ایک ”بے فائدہ ” وزارت سے چمٹ کر بھی انہوں نے بقول عامر مرحوم یہی سوچ کر اقتدار سے نظریں نہیں پھیریں
پھر وہی ہم ہیں ‘ وہی تیشۂ رسوائی ہے
دودھ کی نہر تو”پرویز” کے کام آئی ہے
مگراسے کیا کیا جائے کہ جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے والی صورتحال بن کر ان کو آئینہ دکھا رہی ہے ۔

مزید پڑھیں:  گندم سکینڈل۔۔۔ اعتراف گناہ؟؟