زخموں کی نمائش کا سلیقہ نہیں ہم کو

سیاسی چوراہے پر گندے کپڑے دھونے سے سیاسی رہنماء کیا مقصد حاصل کرناچاہتے ہیں اس غلیظ طرزعمل پرتبصرہ کرنے سے بہتر ہے کہ عوام کے دکھ درد کی بات کی جائے ‘ ویسے یہاں بھی سیاسیوں کی”سیاہ ست” آڑے آرہی ہے اور ایک سوال اٹھ رہا ہے کہ موجودہ نظام سیاست میں ”بے چارے” سینیٹ کی کوئی اہمیت ہے بھی یا نہیں ‘ کہ گزشتہ روز سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں ارکان کی جانب سے بجلی و گیس کی قیمتوں میں اضافے پر شدید احتجاج کیا گیا ‘ سینیٹر سعدیہ عباسی نے کہا کہ سولر پینل لگوانے کے باوجود ڈیڑھ ڈیڑھ لاکھ روپے تک بل آرہے ہیں یہ سب آئی ایم ایف کی وجہ سے ہو رہا ہے سینیٹر کامل علی آغا بولے ایک بندے کا چار مرلے کا گھر ہے اور گیس کا بل 63 ہزار روپے آیا ہے خیال رہے کہ چار ماہ میں دوسری مرتبہ گیس کی قیمت میں بڑا اضافہ ہوا ہے’ آئی ایم ایف کی شرط پر کم گیس استعمال کرنے والے پروٹیکٹڈ صارفین پر بھی بوجھ بڑھے گا گیس قیمتوں میں سو اور پروٹیکٹڈ صارفین کے لئے تین سو ایم ایم بی ٹی یو اضافے کا امکان ہے خواجہ حیدر علی آتش نے کہا تھا
زخموں کی نمائش کاسلیقہ نہیں ہم کو
وہ ہیں کہ انہیں شوق مسیحائی بہت ہے
عوام کی تومسلسل چیخیں ابھر رہی ہیں وہ تو نہ جانے کب سے فریاد کناں ہیںشاید ان کی آہ و بکا میں وہ قوت ہے نہ تاثیر جس سے حکمرانوں کے کانوں پر جوئیںرینگ سکیں مگر یہ جوعوامی نمائندگی کے دعویدار ہیں انہیں بھی احساس ہے کہ ان کی سننے والا بھی کوئی نہیں اور یہ صرف ”حاضری” لگوا کرخاموشی کی بکل اوڑھنے میں عافیت جانتے ہیں اسی لئے ہم یہ سال اٹھانے پر مجبور ہوئے کہ موجودہ نظام سیاست میں سینیٹ کے ادارے کی کوئی اہمیت ہے بھی یا نہیں کیونکہ ان کی ”شوق مسیحائی” کا کوئی مثبت نتیجہ سامنے نہیں آرہا ہے اور قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں یہ جو شور و غوغا سنائی دینے کی خبریں سامنے آئی ہیں تولگتا ہے کہ یہ تمام صدائیں نقار خانے میں توتی (طوطی) کی صدائوں سے زیادہ اہمیت کی حامل نہ ہوتے ہوئے ”صدا بصحرا” ہی رہیں گی۔ اس لئے تو ہم نے سینیٹ کی اہمیت پرسوال اٹھا دیا ہے سینیٹ پر تو خیربس ایک”آئینی” ادارہ ہونے کی تہمت ہی لگائی جا سکتی ہے کیونکہ اگر اتنا شور وغوغا کے بعد بھی سینیٹروں کے احتجاج پرکسی منتخب تو کیا نگران حکومت کے کانوں میںکھجلی نہیں نہیں ہور ہی ہے اوروہ برابریوٹیلٹی بلز یعنی بجلی ‘ گیس ‘پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کرتے چلی جارہی ہے اور عوام کی آہیں صورتحال پر اثر انداز نہیں ہو رہی ہیں توسینیٹرز بے چارے” حاضری لگوا کر”لوگوں کو صرف یہ احساس ہی دلا رہے ہیں کہ ”میں ہوں نا” یعنی
کسی کے قرب نے اتنا وقار توبخشا
کہ اپنے لہجے سے میں بے ہنرنہیں لگتا
گزشتہ روزایک خبر آئی تھی کہ آئی ایم ایف کی لرط پر گیس مزید 57فیصد مہنگی کر دی گئی پروٹیکٹڈ صارفین 100 ‘نان پروٹیکٹڈ 300 اوربلک میں 900جبکہ سی این جی سیکٹرکے لئے 170 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو اضافہ کر دیاگیا ابھی یہ اضافہ تو گزشتہ روزکیاگیا جس کا اطلاق ماہ فروری کے بلوں میں سامنے آئے گایعنی اگلے مہینے صارفین کی چیخم دھاڑ دیکھنے اور سننے والی ہو گی جبکہ گزشتہ دو دنوں کے دوران جوگیس بل عوام کوبھیجے گئے ہیں ان میں سابقہ فیصلے کے مطابق اضافے سے عوام کی فریاد ساتویں آسمان کو چھو رہی ہے حد تو یہ ہے کہ گیس مل بھی نہیں رہی یعنی وہ جوکئی مہینوں سے صرف تین وقت(بعد از فجر ‘ دوپہر بارہ بجے سے دوبجے اور شام لگ بھگ چھ بجے سے رات نوبجے تک) فراہم کرنے کے حکومتی دعوے بھی اب سوالات کی زد میں ہیں آئے روز صوبائی دارالحکومت پشاور کے مختلف علاقوں سے گیس کی عدم فراہمی کے حوالے سے شکایات موصول ہو رہی ہیں اور گیس نہ ہونے کے باوجود بلوں میں بتدریج اضافہ سمجھ سے بالاتر ہے ادھرسرحدچیمبر آف کامرس نے بھی گیس بلوں میں ناروااضافہ مسترد کرتے ہوئے قیمتوں میں اضافے پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ اس سے ملک میں انڈسٹریل ‘ کمرشل سمیت کاروبار’ تجارت اور صنعتی ترقی کا عمل شدید متاثر ہو رہا ہے یہاں اس بات کی نشاندہی ضروری ہے کہ گیس کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ فی بل کچھ عرصہ پہلے فکسڈ چارجز کے نام پر ایک ہزار روپے لاگو کئے گئے تھے تاہم گزشتہ ماہ اسے بھی دوگنا یعنی دوہزار روپے کر دیاگیا تھا جبکہ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ قیمتوں کے تعین کے حوالے سے جو ناروا سلوک صارفین کے ساتھ اختیار کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ 90 یونٹ کی قیمت 1310 روپے مقرر کی گئی اور صرف ایک یونٹ اضافے یعنی 91 یونٹ ہو جانے کے بعد یہ رقم 4053 روپے کر دی جاتی ہے گویا 90 یونٹ کے اگر صرف ایک یونٹ اضافی گیس صارفین استعمال کرنے کی غلطی کریں توانہیں 2743 روپے کاٹیکہ لگ جاتا ہے یہ ددنیا کے کس اصول اور قانون کے مطابق ہے اس کا جواب عوام کو ضرور ملنا چاہئے ۔جبکہ اب گیس مزید مہنگی ہونے کے بعد صورتحال کیا ہوگی اس کے بارے میں تو سوچ کر ہی دل میں ”کچھ کچھ ہوتا ہے” گویا بقول شاعر
وہ آئینے کوبھی حیرت میں ڈال دیتا ہے
کسی کسی کو خدا یہ کمال دیتا ہے!
ایسا لگتا ہے کہ نگران حکومت نے آنے والی منتخب بلکہ بقول شخصے”چنتخب” حکومت کی راہ کے کانٹے چن کراسے کم ازکم آئی ایم ایف کے ساتھ مارچ کے مہینے میں مذاکرات کے حوالے سے بہت بڑا ریلیف دینے کی ٹھان لی ہے تاہم تابہ کے؟ آنے والی حکومت کی راہ کے ”کانٹے” چننے میں مدد فراہم کرنے کے باوجود وہ جو”بارودی سرنگین” بچھی ہوئی ہیں ان کی موجودگی میں منتخب (؟) لاکھ کوشش بھی کرے ‘ اس کی ذرا سی غفلت یا غلطی اس کے ”وجود” کو ایک ”بھک” سے اڑا کر کھ سکتی ہے ‘ اور یہ جو ان دنوں سیاسی میدان میں اتھل پتھل دیکھنے کو مل رہی ہے اور نئی حکومت کے قیام کے حوالے سے گومگو کی کیفیت دیکھنے کو مل ریہ ہے یعنی کوئی بھی حکومت بنانے پر آمادہ دکھائی نہیں دیتا ‘ یہاں تک کہ تحریک انصاف جوکئی روزسے ”اکثریت” کے دعوے کرتے ہوئے مرکز اور خیبر پختونخوا کے علاوہ پنجاب میں بھی اپنی حکومتوں کے قیام کے بیانئے کوآگے بڑھا رہی تھی ‘ اب اس نے بھی مرکز میں اس بھاری پتھر کوچوم کرنیچے رکھ دیا ہے ‘ حقیقت بھی یہی ہے کہ مرکز میں جوبھی پارٹی حکومت قائم کریگی وہ بمشکل ہی چھ ماہ نکال کر خود اپنی ہی بوجھ تلے دب کر رہ جائے گی کیونکہ حکومت سنبھالتے ہی سب سے بڑا مسئلہ یوٹیلٹی بلز میں عوام کو ریلیف دینے کاہوگا جوکسی الہ دین کے چراغ کے جن سے بھی حل ہونے والا نہیں رہا اورمہنگائی میںمزید اضافہ ناقابل قبول کے زمرے میں ہونے کی بناء پر عوام کو مطمئن کرنے میں ناکامی پر منتج ہوگا ‘ اس کے بعد عوام کاردعمل کیاہوگا؟اس پرضرور سوچناپڑے گا ‘بقول خالد جاوید جان
کل کا خوف لگا ہوا ہے ‘ اب کیا ہوگا؟
ہر چہرے پر لکھا ہوا ہے ‘ اب کیاہوگا؟
جس رستے پر بھی جاتا ہوں ‘ رشتہ روکے
آگے ایک سوال کھڑا ہے’ اب کیا ہوگا؟

مزید پڑھیں:  اب یا کبھی نہیں