نیا پنڈورہ باکس

کمشنر راولپنڈی لیاقت علی چٹھہ نے انتخابات کے عمل پر جو سوال اٹھائے ہیں ان کی وجہ سے ایک نیا پنڈورہ بکس کھل چکا ہے ،اور لازمی ہے کہ اس معاملے کی تحقیقات غیر جانبدارانہ انداز میں کی جائیں تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو سکے، کیونکہ ان الزامات نے عالمی سطح پر بھی انتخابات 2024 ء کو شکوک و شبہات کے دائرے میں لا کر کھڑا کر دیا ہے ،ویسے تو ملک کے اندر سابقہ ادوار میں ہونے والے انتخابات پر بھی ”شفافیت ،غیر جانبداری اور آزادانہ” کی تہمت نہیں لگائی جا سکتی اور تقریبا ًیا کم و بیش گزشتہ تمام انتخابات الزامات اور سوالات کی زد میں ارہے ہیں، خصوصاً 2018ء کے انتخابات میں جس طرح آر ٹی ایس بٹھا کر ایک جماعت کی جھولی میں جیت ڈال کر اسے ملک پر مسلط کیا گیا۔ وہ اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی بلکہ اس وقت کی” دھاندلی” کے پیچھے موجود قوتوں نے بعد میں خود تسلیم کیا کہ انہوں نے ایک ہائبرڈ رجیم کو مسلط کرنے میں کردار ادا کیا، ملک میں اگر واقعی آزادانہ، غیر جانبدارانہ اور منصفانہ انتخابات ہوئے تو وہ 1970ء کے انتخابات تھے جو جنرل یحییٰ خان کے دور میں کرائے گئے، اس کے بعد جتنے بھی انتخابات ہوئے ان پر کسی نہ کسی طور سوالات اٹھتے رہے ہیں اور اب تازہ انتخابات کے حوالے سے نہ صرف جیتنے والے بلکہ شکست سے دوچار جماعتیں بھی اپنی اپنی جگہ نوحہ کنا ںہیں، جبکہ گزشتہ روز اس حوالے سے ایک اعلیٰ سرکاری افسر نے جو انکشافات کئے ہیں ان کی وجہ سے ایک بھونچال کی سی صورتحال تو ضرور ابھری ہے جو اس بات کی متقاضی ہے کہ الزامات کی غیر جانبدارانہ تحقیقات سے اصل حقائق سامنے لائے جائیں ،اس معاملے میں اگرچہ الیکشن کمیشن آف پاکستان اور پنجاب کے وزیراعلیٰ محسن نقوی نے الگ الگ کمیٹیاں بنانے اور تحقیقات کو منطقی انجام تک پہنچانے کا حکم دے دیا ہے، جو لازمی تھا، اگرچہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں از خود نوٹس کے حوالے سے فیصلہ دیتے ہوئے عدالت عظمیٰ کے تحت اس مسئلے کو دیکھنے سے انکار کر دیا ہے اور اس سلسلے میں پہلے سے دائر ایک درخواست پر شنوائی کا فیصلہ کیا ہے جبکہ الزام لگانے والے سے چیف الیکشن کمشنر اور چیف جسٹس کو اس معاملے میں ملوث کرنے کے حوالے سے جو بات کی ہے، اس پر چیف جسٹس نے گزشتہ روز میڈیا کے چند نمائندوں سے سپریم کورٹ کے باہر گفتگو کرتے ہوئے جو مؤقف اختیار کیا ہے وہ منطقی طور پر بالکل درست ہے کہ آپ مجھ پر بے شک قتل کا الزام لگائیں، آپ کو حق حاصل ہے لیکن اس کے لئے ثبوت بھی تو آپ کے پاس ہونے چاہئیں، جناب چیف جسٹس کی بات کو اس لحاظ سے بھی رد نہیں کیا جا سکتا کہ ان کا انتخابی عمل سے کوئی تعلق یا لینا دیناسرے سے ہے ہی نہیں، ادھر ملک کے معروف سینئر صحافیوں ،وی لاگرز اور بطور خاص انویسٹی گیٹیو رپورٹرز نے جو سوالات اٹھائے ہیں ان کی وجہ سے ان مبینہ الزامات کی دھجیاں فضا میں بکھر کر رہ گئی ہیں،سابقہ کمشنر راولپنڈی کے حوالے سے گزشتہ ایک ڈیڑھ ہفتے کی سرگرمیوں، ملاقاتوں اور ایک خاص مقام پر ان کی موجودگی نے بھی کچھ سوالات کو ابھار دیا ہے، اور انہی کی وجہ سے لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب نے ان کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا مطالبہ کرتے ہوئے ان کو ملک سے باہر نکلنے پر پابندی کی بات کی ہے، جبکہ کچھ حلقے موصوف کی ذہنی صحت کے حوالے سے بھی سوالات اٹھا کر ان کے طبی معائنے کی بات کر رہے ہیں، انتخابات کے حوالے سے آراوز اور ڈی آر اوز نے بھی گزشتہ روز ان کے الزامات کی تردید کر دی ہے، جبکہ صحافیوں کی تحقیقات کے اندر سب سے اہم سوال یہ اٹھایا جا رہا ہے کہ موصوف نے جیتنے والوں پر 70، 70 ہزار کی لیڈ سے جیتنے کی بات کی ہے حالانکہ یہ تعداد دس،پندرہ اوربیس ہزار کے لگ بھگ ہے، بہرحال تحقیقات کے بعد ہی اصل حقائق حقائق سامنے ا سکتے ہیں جبکہ خیبر پختونخوا میں ”جیتنے والوں” پر ان کے مخالفین نے بھی انتخابی عملے پر مختلف نو ع کے الزامات لگائے ہیں، ان کی بھی تحقیقات ہونی چاہیے کیونکہ اس حوالے سے ”چمک” کے زیر اثر سہولت کاری کے علاوہ جیتنے والی پارٹی کے لئے” ہمدردیاں” بھی الزامات کا حصہ ہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ جامع تحقیقات کر کے تمام الزامات کے بارے میں اصل حقائق سامنے لائے جائیں ،تاکہ یہ معاملہ بھی گزشتہ انتخابات کی طرح ”35 پنکچر” بن کر نہ رہ جائے۔

مزید پڑھیں:  ہوش کے ناخن