”بھونچال ”

آٹھ فروری کے انتخابات کے نتائج کے بعد جنم لینے والے بحران میں لمحہ بہ لمحہ شدت پیدا ہورہی ہے جیتنے اور ہارنے والی تمام جماعتیں انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگارہی ہیں، بعض علاقوں میں ان الزامات کی بنیاد پر احتجاج بھی جاری ہے۔ ادھر حکومت سازی کیلئے پیش پیش مسلم لیگ (ن) کے گزشتہ روز منعقد ہونے والے مشاورتی اجلاس میں یہ تجویز بھی دی گئی کہ پارٹی وفاق میں حکومت سازی کیلئے جاری کوششوں کو ترک کرکے صرف پنجاب میں حکومت بنانے پر توجہ مرکوز کرے جہاں پارٹی کو اب سادہ اکثریت حاصل ہوچکی ہے۔ سندھ میں جی ڈی اے کے حیدر آباد میں منعقد ہونے والے احتجاجی جلسہ میں سندھی قوم پرست جماعتوں کے علاوہ جے یو آئی (ف) اور جماعت اسلامی نے بھی شرکت کی، اس جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے جی ڈی اے اور فنگشنل مسلم لیگ کے سربراہ پیر صبغت اللہ شاہ پگاڑا نے کہا کہ دھاندلی زدہ انتخابات کے نتیجے میں بننے والی وفاقی اور صوبائی حکومتیں 10 ماہ بھی نہیں چلیں گی، ہوسکتا ہے کہ ملک میں ایمرجنسی لگ جائے یا مارشل لاء آجائے۔ پیر پگاڑا کے خدشات کی بازگشت ابھی تھمی نہیں تھی کہ راولپنڈی کے کمشنر لیاقت چٹھہ نے ایک پریس کانفرنس میں پنڈی ڈویژن میں دھاندلی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ 70ـ70ہزار سے جیتنے والوں کو 50ـ50ہزار ووٹوں سے ہرادیا گیا،میں اپنے جرم کا اعتراف کرتے ہوئے خود کو قانون کے حوالے کرتا ہوں، مستعفی ہونے والے کمشنر نے منصب اور ملازمت دونوں سے استعفے کا اعلان کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ مجھ پر سوشل میڈیا اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کا شدید دبائو تھا۔ مستعفی کمشنر نے چیف الیکشن کمشنر اور چیف جسٹس آف پاکستان پر بھی سنگین الزامات لگائے۔ پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ نے کمشنر راولپنڈی کے سنگین الزامات کی تحقیقات کیلئے اعلیٰ سطحی کمیٹی بنانے کا اعلان کیا ہے۔
دوسری جانب الیکشن کمیشن آف پاکستان نے کمشنر راولپنڈی کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ کمشنر راولپنڈی اپنے ڈویڑن میں نہ تو آر او تھے نہ ہی ڈی آر او، کسی بھی ڈویژن میں کمشنر کا انتخابی عمل میں کوئی کردار نہیں ہے اس کے باوجود کمشنر راولپنڈی کے الزامات کی تحقیقات ہونی چاہئیں۔ یہ امر بہرطور حیران کن ہے کہ راولپنڈی ڈویژن میں انتخابی عمل کے حوالے سے کسی قسم کے فرائض ادا نہ کرنے والے سرکاری افسر کی پریس کانفرنس اور سنگین الزامات کی نہ صرف غیرمعمولی تشہیر کی گئی بلکہ ان الزامات کی بنیاد پر پورے انتخابی عمل پر ہی سوالات اٹھوائے جارہے ہیں۔ کمشنر کی پریس کانفرنس کو کور کرنے والے اخبار نویسوں میں کسی ایک نے بھی ان سے یہ سوال نہیں کیا کہ الیکشن کمیشن نے جب انتخابی عمل کے حوالے سے انہیں کوئی ذمہ داری ہی نہیں سونپی تو پھر انہوں نے جس دھاندلی کا انکشاف کیا وہ کس کے کہنے پر کرائی یا یہ کہ ان پر کرپشن اور اپنے بیٹے کی غیرقانونی ہاؤسنگ سکیموں کیلئے سہولت کاری کے جو الزامات ہیں اس پر کیا کہتے ہیں نیز یہ کہ ڈی آر او کے احکامات کے پابند آر اوز نے کیسے جعل سازی کے لئے کمشنر کے احکامات پر عمل کیا؟ ہماری دانشست میں اگر پریس کانفرنس میں یہ سوالات پوچھ لیئے جاتے تو صورتحال خاصی واضح ہوجاتی۔
جہاں تک کمشنر کے ذہنی و نفسیاتی مریض ہونے کی باتوں کا تعلق ہے تو ہاتھ کنگن کو آرسی کیا، معالجین کے ایک بورڈ کے ذریعے معاملے کی وضاحت ہوسکتی ہے، البتہ سابق کمشنر جو اب پولیس کی تحویل میں ہیں، کی دو باتیں اہم ہیں اولاً یہ کہ ان پر سوشل میڈیا اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کا شدید دبائو تھا۔ اس ضمن میں سوال یہ ہے کہ کیا صرف ان پر دبائو تھا یا انہوں نے ہی دبائو قبول کیا۔ نیز یہ کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے دبائو سے مراد عام اوورسیز پاکستانی ہیں یا ان کے خاندان کے بیرون ملک مقیم افراد؟ ۔یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ انتخابی عمل میں کمشنر کا منصبی کردار نہ ہونے کے باوجود ان کی پریس کانفرنس نے بھونچال برپا کردیا ہے۔ ملک میں حالیہ عام انتخابات کے نتائج پر مختلف الخیال سیاسی جماعتوں کی جانب سے اپنے اپنے ہارنے والے حلقوں میں دھاندلی کے الزامات اور تحریک انصاف کا یہ دعویٰ کہ ہماری 85نشستیں چھینی گئیں، اس کے پیش نظر ان الزامات کی وجہ سیاسی کشیدگی کے ساتھ عدم استحکام میں خطرناک حد تک اضافہ ہونے کے خطرات نمایاں ہیں۔ الزامات لگاکر مستعفی ہونے والے کمشنر نے ملک کے دو اہم اداروں کے سربراہوں چیف الیکشن کمشنر اور چیف جسٹس آف پاکستان پر بھی سنگین الزامات لگاتے ہوئے انہیں بھی اپنے ہمراہ پھانسی چڑھانے کا کہا۔ اس طور سوال یہ ہے کہ اب اگر الیکشن کمیشن یا سپریم کورٹ ان الزامات کی تحقیقات کے لئے اقدامات کرتے ہیں تو کسی تحقیقاتی کمیٹی یا جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کی اخلاقی حیثیت کیسے منوائی جائے گی؟ اس امر کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ انتخابی عمل میں کسی قسم کا منصبی کردار نہ رکھنے کے باوجود سابق کمشنر راولپنڈی نے اپنی پریس کانفرنس اور لگائے گئے سنگین الزامات کی بدولت ایک نئے بحران کا دروازہ ہی نہیں کھولا بلکہ ان کے الزامات سے یہ بات اور معاملے کو منفی انداز میں دیکھنے اور سازشی تھیوریاں آگے بڑھانے والوں کی چاندی ہوگئی ہے۔
عوام الناس جو یہ امید کررہے تھے کہ انتخابی نتائج کے بعد معاملات بہتری کی طرف گامزن ہوں گے نہ صرف شدید پریشان ہیں بلکہ عوام کی اکثریت کسی انہونی کے خطرے کا دبے لفظوں میں ذکر بھی کررہی ہے۔ خدا کرے کہ سیاسی و معاشی بحران کا حل تلاش کرنے کے ساتھ کمشنر کے لگائے سنگین الزامات کی ایسی آزادانہ تحقیقات ہوں جو عام شہری کو مطمئن کرسکے۔ خاکم بدہن اگر ایسا نہ ہوا تو ایک بدترین کشیدگی معاملات کو اس طور بگاڑنے کا باعث بنے گی جنہیں سدھارنا قدرے مشکل ہوگا۔ یہاں اس امر کا تذکرہ بھی ازحد ضروری ہے کہ بعض حلقے کمشنر راولپنڈی کے انکشاف و الزامات اور اس سے 24گھنٹے قبل پیر پگارا کی جانب سے ایمرجنسی یا مارشل لاء نافذ ہونے کی بات کرنے کو ملاکر دیکھنے او تجزیہ کرنے پر زور دے رہے ہیں۔ بادی النظر میں یہ مشورہ صائب ہے یہ دیکھا جانا ضروری ہے کہ کیا انتخابی عمل کے خلاف کوئی بڑا منصوبہ روبہ عمل ہے ایسا ہے تو منصوبہ سازوں میں کون کون شامل ہے۔ یہ امر بہرطور اپنی جگہ درست ہے کہ سیاسی جماعتیں جن حلقوں سے جیتی ہیں وہاں انہیں عوامی مقبولیت کا دعویٰ ہے اور جہاں سے ہاری ہیں وہاں منظم دھاندلی کا، اسی طرح پیر پگارا کا یہ الزام بھی بہت عجیب ہے کہ انتخابی نتائج اڑھائی سے تین ماہ قبل طے پاگئے تھے اور اس کے لئے فی نشست کروڑوں کی ادائیگیاں بھی کردی گئی تھیں۔ امر واقعہ یہ ہے کہ اب پیر پگارا کی سیاسی و اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے الزامات کے ٹھوس ثبوت نہ صرف عوام کے سامنے رکھیں بلکہ ان ثبوتوں کے ہمراہ عدالتوں سے بھی رجوع کریں تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوسکے۔

مزید پڑھیں:  ہوش کے ناخن