مدارس ہنر بھی سکھائیں

میں نظامِ تعلیم دنیا کے مقابلے میں بہت ہی کم درجے کا ہے ۔ یہاں کے سکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں جو تعلیم دی جاتی ہے وہ عملی زندگی میں کہیں بھی کام نہیں آتی ۔ان سکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں سے فارغ ہونے والے اسی نظام کو دوام بخشنے کے لیے کمر بستہ ہوتے ہیں اور اسی نظام تعلیم سے فارغ اساتذہ نئی نسل کو بھی یہ بوسیدہ نظام منتقل کررہے ہیں ۔ یہ نظام تعلیم انگریزوں نے وقتی دفتری امور میں مدد دینے کے لیے ترتیب دیا تھا ۔ اس وقت پاکستان کے سکولوں ، کالجوں میں جو نصاب رائج ہیں ان کو پڑھ کر عملی دنیا میں قدم رکھنے والا شخص اتنا ہی بے بس ہوتا ہے جتنا ایک ان پڑھ شخص ہوتا ہے ۔ اس ملک میں کچھ پرائیویٹ ادارے بھی ہیں جن کا مقصد بچوں کو انگریزی زبان میں مہارت دینا ہے ۔ یہ ادارے بھی علوم کی تعلیم اور عملی تربیت کی طرف توجہ نہیں دیتے ۔ اس نظام کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ ہر سکول ، کالج اور یونیورسٹی کے سامنے نوٹس ، گائیڈز اور حل شدہ پرچہ جات کی دکانیں ہوتی ہیں ۔ نقل کے لیے چھوٹے چھوٹے پاکٹ سائز کے تیار مواد بھی فروخت ہوتے ہیں ۔یعنی تعلیمی سال میں سکول میں جاکر پڑھنے کی ضرورت ہی کیا ہے ۔ پھر امتحانی نظام ایسا ہے کہ اس میں بھی زیادہ محنت کی ضرورت نہیں ہوتی بچوں کو پہلے سے پتہ ہوتا ہے کہ امتحان میں کیا آئے گا ۔ اس مقصد کے لیے ٹیوشن اور کوچنگ سینٹر بھی ہر گلی محلے میں کھلے ہوئے ہیں ۔ جو آپ کو ایک ایک لفظ رٹوائیں گے ۔ تعلیم کا مقصد سمجھنا تھا اور اس سمجھ کی روشنی میں کسی بھی کام کو عملی طور پر کرنا تھا ۔ جسے ہمارے نظام اور اس کے ٹھیکہ داروں نے صرف امتحان پاس کرنے تک محدود کردیا ہے اور امتحان پاس کرنے کے لیے بھی سو چور دروازے نکالے ہیں ۔ اس لیے ہم عملی طور پر بدترین معاشرتی ، معاشی اور اخلاقی بدحالی کا شکار ہیں ۔ ان سکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے علاوہ اس ملک میں چالیس ہزار سے زیادہ مدارس بھی ہیں جہاں بچوں کو دینی تعلیم دی جاتی ہے ۔ یہ تمام مدارس اپنے اپنے ترتیب اور طریقہ کار کے تحت تعلیم دیتے ہیں ۔ جس کی وجہ سے ان مدارس سے علمی تعلیم یافتہ کم اور مختلف فکری ، مسلکی اور گروہی ذہنیت کے لوگ زیادہ نکلتے ہیں ۔دینی تعلیم دینا ایک بے حد مفید کام ہے ۔لیکن اس مفید کام کے ساتھ ساتھ ان کو روزگار کے حصول کے لیے کوئی نہ کوئی ہنر بھی سکھانا چاہئے،اس لیے کہ چالیس ہزار سے زیادہ مدارس سے سالانہ لاکھوں کی تعداد میں طالب علم فارغ ہوتے ہیں ۔ یہ طالب علم معاشرے میں جاکر روزگار سے محروم رہ جاتے ہیں ۔ جس کی وجہ سے مدارس سے فارغ ہونے والے طالب علموں کی معاشی حالات بہتر نہیں ہوتے ۔ یہ حکومت کی بھی ذمہ داری ہے کہ جدید دور کے تقاضوں کے مطابق ملک کے نظام تعلیم کو جدید بنایا جائے اور مدارس میں پڑھنے والے بچوں کے لیے ہنر سیکھنے کا عملی انتظام کر ے ۔ دنیا بہت تیزی کے ساتھ ڈیجیٹل دور کی طرف بڑھ رہی ہے ۔ ایسے میں کمپیوٹر کا سمجھنا ہر طالب علم چاہے وہ دینی مدرسے میں ہو یا سکول کالجوں میں ضروری ہے ۔ اس لیے کہ اب دینی علوم بھی کتاب سے زیادہ انٹرنیٹ پر دستیاب ہیں جن تک رسائی کمپیوٹر کو سمجھے بغیر ممکن نہیں ہے ۔ پاکستان میں بے روزگاری کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ یہاں لوگ ہنر مند نہیں ہیں ۔ اس وقت معاشرے میں جن کے پاس ہنر ہے وہ زندگی بہتر انداز میں گزار رہے ہیں ۔ جرمنی ، جاپان ، چین ، شمالی کوریا اور دیگر بہت سارے ممالک اپنے تمام طالب علموں کو کوئی نہ کوئی ہنر سیکھاتے ہیں جس کی وجہ سے ان ممالک کی جی ڈی پی دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں بہت بہتر ہے اور ان ممالک میں روزگار کے مواقع بھی بہت زیادہ ہیں اور ان کا معیار زندگی بھی بہت اعلیٰ ہے ۔ حکومت جہاں بہت سارے غیر ضروری کاموں پر اربوں روپے خرچ کررہی ہے وہاں چند ارب روپے خرچ کرکے مدارس کے لاکھوں طالب علموں کے لیے ان مدارس کے قریب فنون و ہنر سیکھنے کے مراکز بنا سکتی ہے ۔جس سے یہ لاکھوں طلبا مستفید ہوں گے اور مدارس سے فارغ ہونے کے بعد دینی علوم کی مہارت کے ساتھ ساتھ ان کے پاس روزگار حاصل کرنے لیے ہنر ہوگا اور یہ طالب علم معاشرے میں عزت کے ساتھ زندگی گزارنے کے قابل ہوجائیں گے ۔ ان طالب علموں کے پاس ہنر نہ ہونے کی وجہ سے یہ مجبوراً چندہ کلچر کی طرف راغب ہو جاتے ہیں اور یوں ملک اور علاقہ کی ترقی میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہوتا ۔ ہنر نہ ہونے کی وجہ سے کاٹیج انڈسٹری بھی اس ملک میں نہیں بن رہی ۔چین ، بنگلہ دیش اور دیگر ممالک نے ہنر سکھا کر بچوں کو کاٹیج انڈسڑی کی طرف راغب کیا اور وہاں لوگ اپنے گھروں میں جو ہنر انہوں نے سیکھا ہوا ہے اس کو بروئے کار لاکر کچھ نہ کچھ بنا رہے ہیں ۔ جس کی وجہ سے ان کا ملک صنعتی طور پر ترقی کررہا ہے جبکہ ان کے مقابلے میں ہمارے ملک میں سوئی سے لیکر کھلونے تک ہم چین سے منگوا رہے ہیں ۔ یہ سب کچھ وہاں لوگ اپنے گھروں میں بناتے ہیں ۔ جس کی تربیت ان کو سکول کی تعلیم کے دوران ہی مل جاتی ہے ۔ آنے والے دس پندرہ برسوں میں پاکستان میں بے روزگاری مزید کئی گنا بڑھ جائے گی ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت جو لوگ روایتی روزگاروں سے وابستہ ہیں جیسے موٹر مکینک وغیرہ یہ سب بے روزگار ہوجائیں گے اس لیے کہ موجودہ ٹیکنالوجی جس کو کسی حد تک غیرسائنسی طریقے سے سمجھ کر یہ کام کررہے ہیں ۔ یہ ٹیکنالوجی مکمل طور پر ختم ہوجائے گی اور جو نئی ٹیکنالوجی آرہی ہے اسے روایتی طریقہ کار کے تحت سیکھنا عملاً ممکن نہیں ہے ۔ دنیا جس تیزی کے ساتھ ٹیکنالوجی میں ترقی کررہی ہے اور مصنوعی ذہانت کے ذریعہ آگے بڑھ رہی ہے ۔اگر ہم نے اس کا ساتھ نہیں دیا تو ہم پتھر کے دور میں پہنچ جائیں گے ۔ پاکستان کی آبادی بہت تیزی کے ساتھ بڑھ رہی ہے اور اسی حساب سے پاکستان میں مہنگائی اور غربت بھی بڑھ رہی ہے ۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اس ملک کا نوجوان کوئی کام نہیں کرتا ۔ یہاں گھر میں کمانے والا ایک اور خرچ کرنے والوں کی تعداد دس سے زیادہ ہے ۔پاکستان میں اس وقت بھیک مانگنے والوں کی تعداد کروڑوں میں پہنچ چکی ہے ۔ ان میں وہ افراد ہیں جو سڑکوں پر بھیک مانگتے ہیں اور وہ افراد جو مختلف مذہبی معاملات کے نام پر بھیک چندے کے نام پر مانگتے ہیں ۔ یہ تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے ۔ ملک کے موجودہ معاشی صورتحال میں بھیک اور چندہ دینے کی استعداد روز بروز کم ہوتی جارہی ہے اور اگر اس ملک کے حالات یہی رہے تو چند برسوں میں کوئی بھی چندہ یا بھیک دینے کی صلاحیت اور حیثیت نہیں رکھے گا ۔ جس کی بعد جو صورتحال ہوگی آپ اس کا تصو ر بھی نہیں کرسکتے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ تعلیم چاہے دنیاوی ہو یا دینی اس کے ساتھ ساتھ بچوں کو ہنر سکھانا چاہئے ۔ تاکہ وہ معاشرے کی ترقی اور بہبود میں حصہ ڈال سکیں اور عزت کے ساتھ اپنے لیے رزق کما سکیں ۔ مدارس کے منتظمین کو بھی چاہئے کہ وہ حکومت کے ساتھ مل بیٹھ کر اپنے طالب علموں کے عملی تربیت کا انتظام کریں ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جو دینی جماعتیں ہیں وہ اس سلسلے میں کبھی بات نہیں کرتی شاید ان کو یہ ڈر ہو کہ اگر مدارس کے یہ طالب علم کوئی ہنر سیکھ کر روزگار حاصل کریں گے تو ان کی سیاست کیسے چلے گی ۔ اگر چالیس ہزار سے زیادہ مدارس سے ہر برس جو لاکھوں طلبا فارغ التحصیل ہوکر نکلتے ہیں ان کے پاس کوئی ہنرہوگا اور یہ کوئی باعزت روزگار حاصل کرنے کے اہل ہوجائیں گے تو اگلے برس ان مدارس میں پڑھنے والے بچوں کی تعداد دگنی سے زیادہ ہوجائے گی ۔ ہنر کسی مذہب کی میراث نہیں ہے ، ہنر سے انسان فائدہ اٹھاتا ہے اور بھیک مانگنا مذہب اسلام میں کسی بھی طور جائز نہیں ہے ۔ محنت سے کمانے کی تلقین اسلام کرتا ہے اور محنت اب بغیر ہنر کے ممکن نہیں ہے ۔ پاکستان کے تمام بچوں کو ہنر سکھانا چاہئے اور مدارس کے طالب علم بھی پاکستان ہی کے بچے ہیں ان کا بھی یہ حق بنتا ہے ۔ مخیر حضرات اگر ان کو چندہ دینے کے بجائے ان کے لیے ہنر سکھانے کا کوئی انتظام کروادیں تو یہ صدقہ جاریہ ہوگا ۔ اس لیے کہ چندہ خرچ ہوجاتا ہے اور ہنر سرمایہ کاری ہے جس سے مسلسل ان طالب علموں کو فائدہ ملتا رہے گا ۔ ہنر سکھاتے ہوئے جنس کی تفریق نہیں ہونی چاہئے ۔بچے اوربچیوں سب کو ہنر سکھانا چاہئے ۔ اس لیے کہ ہنر مند مائیں معاشرے کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے میں بہت معاون ہوتی ہیں ۔

مزید پڑھیں:  صنفی تفریق آخر کیوں ؟