متین فکری

پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنماء نامزد سپیکر خیبرپختونخوا اسمبلی عاقب اللہ خان نے کہا ہے کہ وفاق کے ساتھ تصادم کی پالیسی نہیں چلائیں گے اور بہتر تعلقات استوار کریں گے تاکہ صوبے کو درپیش بحرانوں کا حل نکال سکیں۔انہوں نے کہا کہ صوبہ اورملک قرضوں کی دلدل میں دھنسا ہوا ہے اور غریب عوام مہنگائی اور بیروزگاری کی چکی میں پس رہے ہیں،اس کیلئے حکومتی اور اپوزیشن بنچوں پر یکساں ذمہ داری عائد ہوتی ہے ، میں نہ مانوں اور اختلافات در اختلافات کی پالیسیوں کو ترک کرنا ہو گا۔اگرچہ تحریک انصاف کے اس سطح کے عہدیدار کا یہ بیان مرکزی پالیسی اور قیادت کے فیصلوں اور مؤقف میں تبدیلی کاباعث تو نہیں بن سکتا اور نہ ہی اس کی امیدہے، اس کے باوجود تحریک انصاف کی صفوں سے اس طرح کی سوچ کا اظہار سنجیدہ غور و فکرکی عکاسی کرتا ہے،پی ٹی آئی کی عوامی مقبولیت میں کلام نہیں اور کارکنوں کے جوش و خروش اور پرزور حمایت میںبھی کوئی پوشیدہ امر نہیں البتہ ان کا جذبات کے دھارے میں بہہ جانا اور زیرک فیصلوں کی کمی بھی کوئی پوشیدہ امر نہیں، تحریک انصاف کی آمدہ صوبائی حکومت اگر اس موخر الذکر کمزوری پرقابوپانے پر ابتداء ہی سے توجہ دے اور تصادم و مخالفت برائے مخالفت سے گریز اختیار کرکے سنجیدہ تنقید ومخالفت اور صوبے کے حقوق کے حصول کی متانت سے سعی کرنے پرتوجہ دے تو یہ ایک اچھی ابتداء ہو سکتی ہے، انتخابی نتائج اور سیاسی طور پر ملک کی جو صورتحال ہے اگرچہ یہ ناموافق حالات ہیں لیکن صوبائی حکومت اور صوبائی قیادت اگر سوچ سمجھ کر قدم اٹھائے تو ان کمزوریوں کو مرکز سے صوبے کے وسائل کے حصول کیلئے استعمال کرکے کامیابی حاصل کر سکتی ہے ۔ توقع کی جانی چاہئے کہ بعد از قیام حکومت صوبہ مرکز محاذ آرائی سے گریز کرتے ہوئے صوبے کے وسائل کے حصول اور مسائل کے حل کو اولیت دی جائے گی۔

مزید پڑھیں:  صنفی تفریق آخر کیوں ؟

بے وسائل
پشاور کے ویلج و نیبر ہڈ کونسلوں کے اجلاس دو سال میں ایک بار بھی منعقد نہ کئے جا سکے جبکہ لوکل گورنمنٹ ایکٹ کے مطابق مہینے میں تین روز اجلاس طلب کرنالازم ہے، سٹی کونسل پشاور نے تمام ویلج و نیبر ہڈ کونسلوں کے چیئرمینوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ باقاعدگی سے اپنے کونسل اجلاس طلب کریں تاکہ عوامی مسائل کا اندازہ ہوسکے اور ان کا حل تلاش کیا جاسکے۔ کونسل اجلاس میں میئر پشاور نے تمام چیئرمینوں کو سختی سے تاکید کی کہ وہ اپنے علاقے کے مسائل اجاگر کرنے کیلئے کونسل اجلاس باقاعدگی سے طلب کریں اور ان مسائل کو سٹی کونسل اجلاس میں زیر بحث لائیں تاکہ ان کا حل تلاش کیاجا سکے ۔اجلاس طلبی کی قانونی ضرورت سے احتراز بڑی بے ضابطگی اور ناکامی کے زمرے میں آتا ہے لیکن دوسری جانب اجلاس میں سامنے آنے والے مسائل کے حل کیلئے جس قسم کے وسائل درکار ہوتے ہیں شاید وہ بھی دستیاب نہیں اور بلدیاتی نمائندوں کو فنڈز کی عدم فراہمی عدم دلچسپی کی سب سے بڑی وجہ ہے یہی وجہ ہے کہ نشستند وگفتند و برخواستند سے گریز کیا جاتا رہا اب جبکہ صوبے میں نئی حکومت قائم ہونے جارہی ہے لیکن سیاسی عدم مفاہمت کے باعث اور ساتھ ہی دیگر سیاسی حکومتوں کی طرح آنے والی حکومت کی بھی بلدیاتی اداروں اور نمائندوں کے ساتھ سوتیلی ماں کاسلوک غیرمتوقع نہیں ،ایسے میں بلدیاتی اداروں کے بدستور عضو معطل رہنے اور صرف تنخواہوں کی ادائیگی کے بقدر ہی وسائل پاس ہونے کے خدشات ہیں ،یہی متوقع صورتحال رہی توبلدیاتی انتخابات تک کسی خیرکی توقع نہیں، اس کے باوجود توقع کی جانی چاہئے کہ آمدہ حکومت بلدیاتی نمائندوں اور بلدیاتی اداروں سے سوتیلی ماں کا سلوک روا نہیں رکھے گی بلکہ ان کو وسائل فراہم کرکے زیریں سطح پرعوام کے مسائل کے حل میں سنجیدہ اقدامات ہوں گے اور صوبائی حکومت بلدیاتی نمائندوں کو مناسب فنڈز کی فراہمی میں بخل سے کام نہیں لے گی۔

مزید پڑھیں:  ہوش کے ناخن