حکومت سازی کیلئے پی پی پی اور(ن) لیگ میں معاہدہ

وفاق میں حکومت سازی کیلئے پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن)میں مذاکرات کا عمل مکمل ہونے پر گزشتہ شب مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو اور شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ہماری جستجو پاکستان اور آنے والی نسلوں کیلئے ہے۔ شہباز شریف کا کہنا تھا کہ پی پی پی نے وزارتوں یا وزارت عظمیٰ کا تقاضا نہیں کیا۔ بلاول بھٹو نے اس موقع پر کہا کہ ملک کو بحران سے نکالنے کیلئے مسلم لیگ(ن)کا ساتھ دے رہے ہیں۔ بلاول نے یہ بھی کہا کہ صدر مملکت کے عہدے کیلئے ہمارے مشترکہ امیدوار آصف علی زرداری اور وزیراعظم کیلئے شہباز شریف ہوں گے۔ بتایا جارہا ہے کہ سپیکر قومی اسمبلی مسلم لیگ(ن)اورچیئرمین سینیٹ پیپلز پارٹی کا ہوگا۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا کے گورنر پی پی پی سے ہوں گے۔ سندھ اور بلوچستان کے گورنر(ن) لیگ کے،بلوچستان میں دونوں جماعتیں مشترکہ حکومت بنائیں گی۔پنجاب میں مسلم لیگ(ن)اور سندھ میں پیپلزپارٹی حکومت بنانے کیلئے اکثریت رکھتی ہیں۔ خیبر پختونخوا اسمبلی میں تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کی واضح اکثریت ہے یہ ارکان پارٹی فیصلے کے مطابق سنی اتحاد کونسل کا حصہ ہوں گے۔ وفاق میں اتحادی حکومت بنانے کے اعلان کیلئے بلائی گئی پریس کانفرنس میں مسلم لیگ(ن)کے صدر شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ہم نے اور پی پی پی نے کامیاب آزاد امیدواروں، جو اب سنی اتحاد کونسل کا حصہ ہیں سے کہا تھا کہ وہ قومی اسمبلی میں اکثریت ثابت کر کے حکومت بنالیں ہم کھلے دل سے اپوزیشن میں بیٹھ جائیں گے لیکن وہ اپنی اکثریت ثابت نہیں کرسکے۔ دوسری جانب پی ٹی آئی نے ایک بار پھر اپنے اس مؤقف کا اعادہ کیا ہے کہ قومی اسمبلی کیلئے ان کے 180ارکان کامیاب ہوئے ہیں ان میں سے88ارکان کو دھاندلی سے ہرایا گیا۔پی ٹی آئی کے وزارت عظمی کیلئے نامزد امیدوار عمر ایوب خان اور دیگر رہنمائوں کا کہنا ہے کہ دھاندلی سے ہرائے گئے ہمارے ارکان قومی اسمبلی کی کامیابی کا نوٹیفکیشن جاری کیا جائے اسی اثناء میں تحریک انصاف اور جماعت اسلامی نے چیف الیکشن کمشنر سے باضابطہ مستعفی ہونے کا بھی مطالبہ کیا۔ جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمدنے گزشتہ روز سینیٹ میں خطاب کرتے ہوئے چیف الیکشن کمشنر پر غداری کا مقدمہ چلانے کا بھی مطالبہ کیا۔یاد رہے کہ قومی اسمبلی کی 180نشستیں جیتنے کا دعویٰ کرتے ہوئے88 سیٹیں دھاندلی سے ہرانے کا الزام لگانے والی سابق حکمران جماعت تحریک انصاف کے امیدواروں نے اب تک مجموعی طور پر انتخابی نتائج کے خلاف12درخواستیں دائر کی ہیںجبکہ خیبر پختونخوا سے اس کے حمایت یافتہ 10کامیاب امیدواروں کیخلاف مخالف امیدواروں نے درخواستیں دائر کیں۔
امر واقعہ یہ ہے کہ انتخابی دھاندلی اور اپنے بعض امیدواروں کی کامیابی کو ناکامی میں تبدیل کرنے کے دعوے تقریباً تمام سیاسی جماعتیں کررہی ہیں۔ تحریک انصاف کے دیگر دعوئوں کیساتھ ایک یہ بھی ہے کہ کراچی سے اس کی قومی اسمبلی کی17نشستیں چھین کر ایم کیو ایم کو دی گئیں اس کی حقیقت بہرطور انتخابی عذرداریاں دائر ہونے سے اور ٹھوس شواہد پیش کئے جانے پر ہی واضح ہوگی۔ فی الوقت ملک میں ایک بھی سیاسی جماعت ایسی نہیں جو یہ دعویٰ نہ کررہی ہو کہ اس کا مینڈیٹ زبردستی مخالفین کے پلڑے میں ڈال دیا گیا۔ سندھ میں جی ڈی اے کے سربراہ پیر سید صبغت اللہ شاہ پگاڑا نے تو دو قدم آگے بڑھ کر الزام لگایا کہ سندھ میں ایک ایک نشست پر کامیابی کیلئے اڑھائی سے تین کروڑ روپے پیشگی وصول کئے گئے۔ یہ پیشگی رقم کس نے کن سے وصول کی یقینا اس حوالے سے ناقابل تردید شواہد سامنے لانا پیر پگارا کی ذمہ داری ہے۔دوسری جانب مسلم لیگ(ن) کے بعض رہنماء بھی انتخابی عذر داریاں دائر کرنے کی بجائے اسلام آبادہائیکورٹ میں انتخابی نوٹیفکیشن روکے جانے کیلئے درخواستوں کی پذیرائی پر تحفظات ظاہر کررہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انتخابی نتائج کے بعد کے مراحل میں یکطرفہ عدالتی مداخلت مسائل پیدا کرسکتی ہے۔ابتدائی انتخابی نتائج کے بعد پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن)میں حکومت سازی کیلئے باہمی تعاون کے معاملات پر ہفتہ بھر جاری رہنے والے مذاکرات کی کامیابی سے یہ امید بندھی ہے کہ انتخابی ضابطوں کے تحت اب مقررہ وقت پر قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے اور دیگر امور کی انجام دہی میں بظاہر کوئی رکاوٹ نہیں۔ اس وقت مسلم لیگ(ن)اور پی پی پی کے ارکان قومی اسمبلی کی(مخصوص نشستوں کے بغیر)تعداد134ہے،ایم کیو ایم17ارکان سمیت مسلم لیگ(ن)کی اتحادی ہے(ق)لیگ اور آئی پی پی کی قومی اسمبلی میں3-3نشستیں ہیں اس طرح اس اتحاد کے پاس 157ارکان ہیں۔مخصوص نشستوں کے حصول کے بعد اس اتحاد کی قومی اسمبلی میں نہ صرف پوزیشن مستحکم ہوگی بلکہ وزیراعظم کے اعتماد کا ووٹ لینے اور قبل ازیں سپیکر و ڈپٹی سپیکر کے انتخابات میں بھی اتحادیوں کو کسی قسم کی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔
بدلتے ہوئے حالات میں سابق حکمران جماعت پی ٹی آئی جس کے حمایت یافتہ آزاد ارکان اسمبلی پارٹی فیصلے کے اتحادی جماعت سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کرچکے ہیںنے دھاندلی اور 88 نشستیں چھینے جانے کے اپنے مؤقف کیساتھ احتجاجاًاپوزیشن میں بیٹھنے کا اعلان کیا ہے۔ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ 82ارکان کی سنی اتحاد کونسل میں شمولیت پر ہی قانون سوالات نہیں بلکہ ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ جس جماعت نے انتخابی عمل کے آغاز سے قبل مخصوص نشستوں کیلئے الیکشن کمیشن میں درخواست جمع نہ کرائی ہوئی ہو وہ آزاد ارکان کی پارٹی میں شمولیت پر مخصوص نشستوں کا حصہ حاصل کرنے کی اہل ہے؟،اس ضمن میں اہم بات یہ ہے کہ نہ صرف یہ کہ سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں پر نامزدگی کی درخواست جمع نہیں کرائی تھی بلکہ اس جماعت کے سربراہ پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے امیدوار تھے،ایک فیصلے کے بعد وہ آزاد رکن کے طور پر رکن اسمبلی منتخب ہوئے،اس طرح الیکشن ایکٹ کی یہ شرط کے آزاد ارکان صرف اسی جماعت میں شامل ہوسکتے ہیں جس کا متعلقہ اسمبلی میں جماعتی ٹکٹ پر کم از کم ایک کامیاب رکن موجود ہو۔بعض قانونی ماہرین کی اس حوالے سے رائے مختلف ہے ان کا کہنا ہے کہ صرف انتخابی نشان کیساتھ الیکشن لڑنا ہی کافی ہے،لیکن الیکشن ایکٹ میں خود تحریک انصاف کے اپنے اور اور بعدازاں جو ترامیم ہوئیں انہیں قبل ازیں کہیں چیلنج نہیں کیا گیا۔بادی النظر میں یہ معاملہ عدالتوں میں ہی لے جایا جاتا دیکھائی دے رہا ہے اور سپریم کورٹ ہی اس ابہام کو دور کرنے کا واحد فورم ہے۔آگے چل کر پارلیمان ترمیمی بل منظو کرے یا ازسرنو قانون سازی،یہ بعد کی بات ہے اس وقت اہم معاملہ یہ ہے کہ اگر الیکشن ایکٹ کی مخصوص نشستوں والی شق کی جو تشریح کی جارہی ہے اس پر عمل کی صورت میں سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں نہیں ملتیں تو کیا قومی اسمبلی کا ایوان مکمل ہوئے بغیر قانونی حیثیت کا حامل ہوگا؟یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ گو پی پی پی اور مسلم لیگ(ن)اپنے اتحادیوں کیساتھ حکومت سازی کیلئے ا تفاق کرچکے ہیں لیکن بعض معاملات پر قانونی جنگ اب شروع ہوگی،الیکشن ایکٹ کی بعض شقوں پر عدالتی حکم کے بغیر معاملات کیسے آگے بڑھیں گے، یہ ملین ڈالر کا سوال ہے۔

مزید پڑھیں:  صنفی تفریق آخر کیوں ؟