کمزور جمہوریت اور مقتدرہ کی کشمکش

ہم پاکستانیوں کا مزاج جمہوری ہے یا نہیں جمہوری طرز حکومت پر سوال اٹھائیں تو بات صدارتی نظام کی طرف جائے گی جس پر مکالمہ آج کا موضوع نہیں چونکہ جمہوریت ہی رائج ہے اور دعوے کی حد تک ہم جمہوری نظام کے خواہشمند بھی ہیں اس لئے مانیں یا نہ مانیں پاکستان اسلامی جمہوریہ پاکستان کہلاتا ہے یہ الگ بات کہ 2024ء کے عام انتخابات کے بعد جمہوری ملکوں میں ہمارا گراف کس حد تک گر گیا ہے اور ہم نیم جمہوری نیم آمرانہ ملکوں کے ملغوبے کا حصہ بن گئے ہیں ایسا بہت پہلے ہونا چاہئے تھا لیکن اب جا کے ہوا اس کی وجوہات بھی بیان کرنے کی ضرورت نہیں سب کچھ فلم کی طرح آنکھوں کے سامنے چل رہا ہوتا ہے وطن عزیز میں آمرانہ جمہوریت ہی نہیں بلکہ جمہوری طرز فکر یا نظام اب سرمایہ دارانہ مفادات سے بھی جڑ گئی ہے اس کا رپوریٹ جمہوری نظام کی مشکل یہ ہے کہ اس میں ہم جیسے لوگ ہی مشکلات میں گھر جاتے ہیں اور مسلسل گھرے رہتے ہیں اس میں سب سے مشکلات کا سامنا یا متاثر عام آدمی یا کمزور طبقات ہی ہوتے ہیں جاری حالات اس کی سب سے بڑی مثال ہیں اور گزشتہ تین چار سالوں میں عام آدمی جن حالات کا شکار چلا آرہا ہے اسے دہرانے کی ضرورت نہیں ایک عام تاثر تو یہ ہے کہ ان سارے مسائل کی جڑیں مقتدرہ کے باعث گہری ہوتی جارہی ہیں اور مقتدرہ ہی ہمارے ان مسائل کا باعث اور ذمہ دار ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ مقتدرہ اکیلے فساد کی جڑ نہیں بلکہ اس حمام میں ہماری سیاسی اور جمہوری قوتیں جماعتیں اور ان کی قیادت سمیت اہل دانش کا بھی کردار قابل تنقید ہے ۔ جمہوریت کو خارجی محاذ پر یقینا چیلنج اور گونا گوں مسائل کا سامنا ضرور ہے لیکن کیا اس کا صرف ادراک یا احساس دلانا ہی کافی ہے یا پھر اس کا مقابلہ کرنے کی سکت پیدا کی جانی چاہئے اور اس کا مقابلہ کیا جائے یقینا اس کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے اور اس کا مقابلہ اسی صورت ہی ممکن ہوگا جب جمہوریت سے وابستہ لوگ اپنے داخلی مسائل کا بھی ادراک کریں کہ ان کا طرزعمل اور فیصلے کیسے اس ملک میں جمہوری عمل کو کمزور کرنے کا سبب بن رہے ہیں سیاسی فریق اور مقتدرہ دونوں کے ایک دوسرے کو سمجھنے کا فہم کمزور نظر آتا ہے دونوں ہی ایک دوسرے سے پنجہ آزمائی کرنے یا شک کی نگاہ سے دیکھنے کا مزاج جڑ پکڑ چکا ہے یہی وجہ ہے کہ دونوں کے ایک دوسرے کے خلاف تحفظات کے سوا اور کچھ نظر نہیں آتا سیاسی اور جمہوری قوتوں کی کمزوری کی وجہ یہ ہے کہ وہ سیاسی مسائل کو سیاسی طور پر حل کرنے کے قابل نہیں او رنہ ہی وہ اس کی صلاحیت اور عزم و حوصلہ رکھتے ہیں بدقسمتی سے یہ عالم بڑھ رہا ہے اور اب تو سیاسی فریقین مسئلہ کا حل بننے کی بجائے از خود مسئلہ بن گئے ہیں اور سیاست و جمہوریت کوبند گلی میں دھکیلنے کے ذمہ دار بن گئے ہیں جس کے باعث اب لوگ جمہوریت سے متنفر اور سیاسی نظام و جمہوریت کو ناکام سمجھنے لگے ہیں اس میں غیر جمہوری قوتوں کا کردار اور عمل دخل بھی ہوگا لیکن جو کچھ اس ملک میں جمہوریت کے نام پر ہو رہا ہے اس پر بھی نظر ڈالنے کی ضرورت ہے ۔ پاکستان کا سیاسی کلچر ہے کیا اس کی بھی سمجھ نہیں آتی اس حوالے سے وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ ہماری سیاسی ثقافت سیاسیات کے روایتی دانش وروں کی بیان کردہ کسی بھی فارمولے اور طرز پر پورا نہیں اترتا سیاست معاشرت ہی کی مرہون منت ہوتی ہے اور سیاست معاشرے کا عکس ہوتا ہے سادہ الفاظ میں پاکستان کی سیاسی ثقافت جمہوریت خواہشات اور استبدادی حقیقتوں کے پنگوڑے میں جھولتا وا منافقانہ روئیے کی کھونٹی کے سہارے کھڑی نظر آتی ہے معاشرے میں جمہوریت پسند اشرافیہ اور سماجی گروہوں کی بجائے آمرانہ قوتیں غالب ہیں ہمارے ملک اور دوسرے ممالک میں بنیادی فرق ہی یہ ہے کہ وہاں جمہوریت پسند اشرافیہ اور معاشرتی گروہ مضبوط اور منظم ہوئے اور نتیجے میں وہاں استحکام پر مبنی جمہوریتیں قائم ہوئیں مگر ہمارے ہاں معاملہ الٹا رہا نتیجتاً معاشرے میں جمہوری روح کی جڑیں کھوکھلی اور کمزور ہوئیں جس کا نتیجہ بڑھتی ہوئی بے چینی اور سیاسی ثقافت میں تضادات کے ظہور کی صورت میں معاشرہ قائم ہوا جس کے باعث نہ مقتدرہ عوام کی توقعات پرپوری اتر سکی اور نہ ہی ملک مضبوط ہوا اور نہ ہی سول حکمران یوں ہر دور میں لوگوں میں بے اطمینانی پست ہمتی اندیشے اور خدشات کی نمو ہوتی گئی جس کے باعث وطن ‘ حکومت اور سیاسی نظام سے متعلق عوام میں بیزاری اور سرد مہری کے عوامل نمایاں ہوتے گئے اور اس وقت جب 2024ء کے انتخابات مکمل ہو چکے ہیں تو بجائے اس کے کہ اس کے نتیجے میں ملک نئی اور مستحکم قیادت وحکومت کی توقع کرے
معاملہ برعکس اور الٹ ہے ۔اس حقیقت سے بھی بہرحال انکارممکن نہیں کہ پاکستان ایک تغیر پذیر معاشرے کا حامل ملک ہے جہاں سیاسی کلچر کا غیر مستقل مزاج ہونا بھی باعث تعجب اس لئے بھی نہیں کہ تیسری دنیا کا سیاسی کلچر امراء اورعوام میں موجود سیاسی خلیج پرمبنی نظرآتا ہے اور اس کاتضاد پر منتج ہونا فطری امر ہے اس کے ساتھ ساتھ محولہ معاشرے میں ریاست اور معاشرے کا سیاسی تعلق بھی نہایت کمزور ہوتا ہے جیسا کہ ہمارے ہاں واضح طور پر ایسا ہی نظرآتا ہے ۔ پاکستان میں سیاسی اطمینان اور اعتماد مختلف حکومتوں کی کارکردگی کے ساتھ مختلف رہا ہے پاکستان اپنی تاریخ کے بیشتر حصہ میں قومی شناخت کی تلاش میں سرگردان رہا ہے اور بدقسمتی سے اب تک اس میں کامیابی نہ ہونے کے برابر ہے ہم ابھی تک اپنی قومی شناخت اورپہچان بنانے میں ہی پوری طرح کامیاب نہیں ہوسکے ہیں یہاں قومی علاقائی اور مذہبی تشخص اس طرح ایک دوسرے سے گندھے ہوئے ہیں کہ ان کو الگ اور جدا جدا کرکے خالص قومی شناخت کو اجاگر کرنا ناممکن ہوگیا ہے جس سے قطع نظر پاکستان کی سیاست کافی متلون رہی ہے جس میں نئی وفاداریاں اور اتحاد تسلسل کے ساتھ وجود میں آئے اور پھرلوٹے اور ناکام بھی ہوکر رہتی آتی رہی ہیں مشکل امر یہ ہے کہ پاکستانی سیاست میں شخصیت پرستی عروج پر ہے اس ضمن میں کئی نام لئے جاسکتے ہیں جس میں تازہ اور بڑا نام عمران خان کا ہے ملکی سیاست شخصیات کے گرد ہی گھومتی رہی ہے اور اب بھی اسی کیفیت کاشکار ہے اور مستقبل قریب میں بھی یہی منظر نامہ پیش نظر دکھائی دیتا ہے ہماری سیاست کا ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ انتخابی سیاست پر چند با اثر خاندانوں اور افراد کا قبضہ چلا آرہا ہے س طرح کی طرز سیاست میں لوگوں کی سوچ پر یا تو مایوسی غلبہ پالیتی ہے یا پھر معاشرہ انتہا پسندی کی طرف مائل ہو جاتا ہے جس کی جھلکیاں اس وقت ہمارے معاشرے میں نظر آتی ہیں ۔ ظاہر ہے جب عوام انتخابی سیاست اور انتخابی نتائج سے مایوس ہونے لگیں عوام کی رائے کی اکثریت کی وقعت باقی نہ رہے تو انتہا پسندی کی طرف رجعت ہی واحد راستہ رہ جاتا ہے اور یہ خطرناک راستہ ہے مگر اسے اختیار کرنے والے ردعمل میں اسے ہی اختیار کرنے پر مجبور کر دیئے جاتے ہیں یا پھر وہ مجبور ہوجاتے ہیں جس کے معاشرے کے دوسرے شعبے اور طبقات پر بھی اثرات مرتب ہونا فطری امر بن جاتاہے ۔ اس وقت جس طرح مقتدر حلقوں اور عوامی طبقات کے مابین سماجی اور سیاسی عدم استحکام کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے اس سے پاکستانی معاشرے میں باہمی اعتماد کہیں نظر نہیں آتی یہی وجہ ہے کہ ایک حالیہ رپورٹ میں اسے آمرانہ جمہوریت اور اس سے بھی آگے بڑھ کر نیم فوجی ریاست ہی کا نام دیا گیا ہے ۔ مشکل معاملہ یہ بھی رہا ہے کہ ملک میں قومیتیں و گروہی ہی نہیں اب تو سیاسی گروہوں سے نبٹنے کے لئے بھی جبر و استبداد کی پالیسیاں اپنائی جارہی ہیں جس کے باعث پاکستان کے سیاسی کلچر میں تصادم بڑھتا جارہا ہے جس کے تدارک کے لئے ضروری ہوگا کہ ملک میں ایک ایسا سیاسی کلچر پیدا کیا جائے جس میں اختلاف رائے کے ساتھ ساتھ عوام کے فیصلے اور رائے کو اہمیت دینے کے ساتھ اسے برداشت اور قبول کرنے کا رویہ اپنایا جائے سیاسی سرگرمیوں کی حوصلہ شکنی نہیں حوصلہ افزائی کی جائے تاکہ پائیدار جمہوریت کی راہ ہموار ہو ملکی مفاد کا تقاضا ہے کہ افہام و تفہیم کی راہیں تلاش کی جائیں نظریاتی و مفاداتی تضادات پر ملکی مفادات کو جملہ فریق مقدم رکھیں اور ملک کو اس بحران سے نکال کر آگے بڑھنے کی پیہم اور مشترکہ مساعی کی جائیں۔

مزید پڑھیں:  ہوش کے ناخن