خطرے کی اچانک اطلاع

صوبائی دارالحکومت پشاور میں جمعہ کے روز اچانک تعلیمی ادارو ں اور بازاروں کی بندش سے خوف کی فضا کا پیدا ہونا فطری امر تھا حکام کی جانب سے بروقت خطرے سے آگاہی اور اقدام کے باعث خود حفاظتی کا اقدام ناگزیر تھا جس پر بروقت عمل کیاگیا اس سارے عمل کے پس پردہ بعض ممکنہ عوامل کی بھی بازگشت ہے اس طرح کے مواقع پر مختلف قسم کی افواہوں سے تو بچنا ممکن نہیں البتہ اگر ان افواہوں میں حقیقت تھی اور انتظامیہ نے اپنی مشکل کا حل اس طرح سے نکالا تو یہ نامناسب حرکت تھی جسے اختیار کرنے کی بجائے کوئی اورحکمت عملی وضع کی جاتی تو زیادہ بہتر ہوتا قبل ازیں اس امر کا دعویٰ بھی کیا گیا تھا کہ سترہ خود کش حملہ آور جس میں خواتین بھی شامل ہیں وہ شہر میں داخل ہوسکتی ہیں دلچسپ اور مضحکہ خیز امر یہ ہے کہ محولہ رپورٹ میں پشاور کے مضافاتی علاقے کا نام بھی لیا گیا تھا مگر نہ تو اس دعوے کی تردیدکی گئی اور نہ ہی اس بڑے گروہ کے کارندوں کی گرفتاری اور اس کا سراغ لگانے کی کوئی اطلاع سامنے آئی اگر ایسا کیا گیا ہوتا تو گزشتہ روزکے اقدام سے نہ تو کھلبلی مچتی او نہ ہی خوف و ہراس کی فضا پیدا ہوتی نیز اس اقدام کے حوالے سے افواہ طرازی کی بھی نوبت نہ آتی اس طرح واقعات اور معاملات میں عوام کے تعاون اوراعتماد کا حصول دونوں ضروری ہوتے ہیں جس کے لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ جو بھی معاملات ہوں اس میں ڈرامائی عنصر نہ ہواور جملہ امور سے عوام باخبر ہوں اور ان کو اس امر کااعتماد اور یقین ہو کہ جوکچھ ان کو بتایا جارہا ہے یہی حقیقت اور درست صورتحال کی اطلاع و آگاہی کی فراہمی ہے ۔ اچانک سے ہوا کھڑا کرکے شہر کے امن وامان کے حوالے سے غیر یقینی کی جو فضا پیدا کی گئی ہے اس سے عوام میں عدم تحفظ کا احساس بڑھ جانا فطری امر ہے جس کا تقاضا ہے کہ سیکورٹی کے معاملات سخت کئے جائیں اور عوام کو تحفظ کے قابل نظر آنے والے اقدامات یقینی بنائے جائیں اور جو اطلاع دی گئی تھی اسے ایک دن بعد زائل سمجھنے کی بجائے اس ضمن میں اٹھائے گئے عملی اقدامات سے عوام کو مطمئن کیا جائے یا پھر اس افواہ نما اطلاع کی حقیقت سے عوام کوآگاہ کرکے مطمئن کیا جائے ۔

مزید پڑھیں:  امریکہ بھارت شکر رنجی اور پاکستان