ہسپتالوں کی حالت زار اور نگران حکومت کا کارنامہ

بیرون ممالک سے طبی سامان کی سپلائی معطل ہونے کی وجہ سے خیبر پختونخوا کے تمام بڑے سرکاری ہسپتالوں میں آپریشن وغیرہ متاثر ہو ئے ہیں اور مریضوں کو معمولی سامان بھی مارکیٹ سے خریدنا پڑتا ہے، محکمہ صحت کے مطابق ٹیکسز میں اضافہ اور ایل سی نہ کھلنے کی وجہ سے غیر ملکی کمپنیوں کے سامان کی سپلائی کیلئے ہسپتالوں کے درمیان معاہدے بری طرح متاثر ہوئے ہیں، سرجیکل کمپنیوں نے سابقہ نرخوں پر طبی سامان کی سپلائی کرنے سے انکار کر دیا ہے جس کے نتیجے میں طبی سامان کی خریداری میں بیرونی مارکیٹ میں مشکلات کا سامنا ہے، مختلف کمپنیوں نے سرجیکل اور میڈیکل سامان کی خریداری کے معاہدوں پر عمل درآمد کرنے کی بجائے از سر نو معاہدے کرنے اور نئے ٹینڈرز کرنے کا مطالبہ کیا ہے، امر واقعہ یہ ہے کہ صحت کے معاملات پہلے ہی دگرگوں ہیں، صوبائی حکومت نے مفت طبی سہولیات معطل کر رکھی ہیں جبکہ ضرورت اس امر کی تھی کہ کم از کم سرجیکل اور دیگر طبی سامان کے خریداری کو بھی یقینی بنانے کیلئے سابقہ ٹینڈروں کے مطابق متعلقہ کمپنیوں کو فنڈز کی بروقت ادائیگی ممکن بنائی جاتی جبکہ دو روز پہلے نگران وزیراعلیٰ کا یہ بیان حیرت کا باعث ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ خزانے میں 100 ارب چھوڑ کے جا رہے ہیں، اب ان 100 ارب کو عوام چاٹیں یا ان کو دیکھ دیکھ کر خوش ہوں دیکھ دیکھ کر خوش ہوں کہ صوبائی حکومت نے بچت کر لی ہے، کیا ان میں سے اتنی رقم ہسپتالوں میں آپریشن کیلئے ضروری ساز و سامان خریدنے پر استعمال کرنا ضروری نہیں تھا جو اب یہی سامان مہنگے داموں خریدنے پر اسی صوبائی خزانے پر اضافی بوجھ کی صورت میں ادا کرنا پڑے گا؟۔

مزید پڑھیں:  آزادکشمیر میں ''آزادی'' کے نعرے