چوں کفراز کعبہ برخیزد۔۔۔

ملک بھر میں یوٹیلیٹی سٹورز کا چین اس لئے قائم کیا گیا تھا کہ عوام کو مہنگائی سے نجات دلانے اور تاجروں کی چیرہ دستیوں سے محفوظ بنانے میں مدد دی جائے ،اور انہیں معیاری اشیاء کی سستے داموں فراہمی کو یقینی بنایا جائے ،ابتداء میں اس اصول کو ہر ممکن طریقے سے مکمل کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی گئی اور عوام خوشی سے ان سٹورز سے کما حقہ استفادہ کرتے رہے، معیار پر بھی کوئی سمجھوتہ نہ کرنے پر پوری ذمہ داری سے عمل کیا جاتا رہا، مگر چند سال بعد اس ادارے میں بھی بدعنوانی نے جڑیں پکڑنا شروع کر دیں اور خصوصاً دالوں، چاولوں وغیرہ کی خریداری سے ابتداء کرتے ہوئے غیر معیاری اشیاء صرف جن میںمٹی اور چھوٹے چھوٹے روڑے بھی شامل ہوتے تھے ،سستے داموں حاصل کر کے عوام کو لوٹنے کا سلسلہ شروع کیا گیا، اس کیساتھ چینی کی فراہمی میں بھی عوام کیساتھ ہاتھ کرنے کیلئے اچھی کوالٹی کی چینی کی جگہ کم معیار اور کم قیمت کی بورہ چینی تھیلوں میں بھر کر عوام کو لمبی لمبی قطاروں میں کھڑا ہونے پر مجبور کر کے مشروط طور پر فروخت کی جانے لگی، یعنی پانچ کلو تھیلے کیساتھ دیگر اشیاء جن میں صابن ،واشنگ پاؤڈر، چٹنی ،اچار وغیرہ زبردستی فروخت کی جانے لگیں ،اب ایک غریب شخص جو صرف سستی چینی حاصل کرنے جاتا اور اس کے نزدیک دیگر اشیاء کا حصول ”عیاشی” ہی کے مترادف تھا مگر بہ امر مجبوری وہ یہ اشیاء خریدنے پر مجبور تھا، اس کیساتھ بدعنوانی کا ڈول یوں ڈالا گیا کہ چینی اور گھی جو ہر گھر کی ضرورت ہوتی ہے اس کو لمبی قطاروں میں کھڑے ہونے والوں کو نہایت کم مقدار میں فراہم کر کے باقی کا سٹاک عام مارکیٹ میں دکانداروں کو معمولی سے منافع کے ساتھ بیچ کر جیبیں بھری جاتیں، اس حوالے سے ماضی میں یوٹیلیٹی سٹورز کے کئی ملازمین رنگے ہاتھوں گرفتار بھی ہو چکے ہیں جبکہ عوام بے چارے تپتی دوپہروں اور سخت سردیوں کے علاوہ رمضان المبارک جیسے مقدس مہینے میں بھی پسینے میں شرابور، پیاس ہلکان ہوتے ہوئے مایوس گھروں کو لوٹے لوٹتے رہے ہیں ،جبکہ بعض اطلاعات کے مطابق چینی اور گھی، کوکنگ آئل کی قلت کے دنوں میں یوٹیلیٹی سٹورز کے اعلیٰ حکام مبینہ طور پر ٹرکوں کے ٹرک” پار” کرتے ہوئے جیبیں بھرتے رہے ،یہ سارے کھیل تماشے گزشتہ کئی سال سے عوام دیکھتے آرہے ہیں ،مگر اب گنگا الٹی بہنا شروع ہو گئی ہے اور تازہ اطلاعات کے مطابق روزمرہ کی اشیاء اوپن مارکیٹ میں سستی جبکہ یوٹیلیٹی سٹورز پر مہنگی فروخت ہو رہی ہیں، 20 کلو آٹے کا تھیلا بازار میں آسانی کے ساتھ2792 روپے میں مل جاتا ہے جبکہ یہی آٹے کا تھیلا یوٹیلیٹی سٹورز پر 2840 روپے میں مل رہا ہے، اسی طرح چاول مارکیٹ سے تقریبا 41 روپے مہنگا مل رہا ہے، اسی طرح سیلا چاول یوٹیلیٹی سٹورز پر 370 روپے میں دستیاب ہے اور عام بازار میں 317 روپے کلو فروخت ہو رہا ہے، سفید چنے عام مارکیٹ کی نسبت یوٹیلیٹی سٹورز پر 53 روپے کلو مہنگے مل رہے ہیں، کھلی مارکیٹ میں چنے 391 روپے کلو جبکہ سٹورز پر405 روپے کلو میں دستیاب ہیں ،چینی نسبتاً 9 روپے مہنگی مل رہی ہے، غرض مختلف اشیاء صرف کے نرخوں کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو عام مارکیٹ اور سٹورز کے نرخوں میں بعد المشرقین کی سی کیفیت دکھائی دیتی ہے ،حکومت ہر سال رمضان پیکج کے نام پر کروڑوں روپے کی سبسڈی دیکر عوام کو سستے داموں اشیاء صرف کی فراہمی یقینی بنانے کی سعی کرتی ہے مگر یوٹیلیٹی سٹورز کے سسٹم میں موجود گنتی کے بد عنوان عناصر اس سہولت پر مبینہ طور پر ڈاکہ مار کر ذاتی منفعت کو یقینی بناتے ہیں اور عوام ان سہولتوں سے استفادہ کرنے میں کم ہی کامیاب ہوتے ہیں، اب جبکہ رمضان المبارک کی آمد میں دو ہفتے رہ گئے ہیں ،اگر یوٹیلیٹی سٹورز پر عام مارکیٹ کی نسبت اشیاء خوردو نوش مہنگے داموں مل رہی ہیں جبکہ حکومت نے رمضان پیکیج کا اعلان بھی کر رکھا ہے تو بازار اور سٹوروں کے نرخوں میں کمی کا فائدہ کس کو مستفید کرے گا؟، صورتحال اگر اس مقام پر جا چکی ہے تو حکومت کو چاہیے کہ یوٹیلیٹی سٹورز کے ادارے کو ہی ختم کر دیا جائے تاکہ اس کے ملازمین کی تنخواہوں پر اٹھنے والے کروڑوں روپے کی بچت کر کے معیشت کو بہتر کیا جا سکے ،یا پھر ان وجوہات کا پتہ کیا جا سکے کہ بازار کی نسبت سٹورز پر سستا سامان مہنگے داموں کیوں فروخت کیا جا رہا ہے؟۔

مزید پڑھیں:  ''جذبہ رقابت یا اسبابِ عیش کی نایابی''