ارے ارے ” ہم نہیں تو کوئی نہیں ” یہ کیا ہے ؟

مختلف الخیال سیاسی جماعتوں اور ان کے قائدین کو ملک کی موجودہ صورتحال بالخصوص سیاسی و معاشی عدم استحکام، مہنگائی، غربت اور بیروزگاری جیسے مسائل کا نہ صرف سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لے کر ان کے حل کیلئے حکمت عملی وضع کرنا ہوگی بلکہ اس امر کو بھی یقینی بنانا ہوگا کہ مسائل مزید سنگین نہ ہونے پائیں۔ حالیہ انتخابی نتائج کے بعد پہلے سے موجود تقسیم میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے اس تقسیم اور عدم برداشت کا ہی نتیجہ ہے کہ سابق حکمران جماعت پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین عمران خان کے ایماء پر ان کی جماعت نے آئی ایم ایف کو خط لکھنے کا عندیہ دیا ہے۔ خود عمران خان نے گزشتہ روز اڈیالہ جیل میں اخبار نویسوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، آئی ایم ایف سے قرضہ ملا تو واپس کون کرے گا؟ ان کے بقول قرضوں سے غربت بڑھے گی اپنے دور میں آئی ایم ایف سے خود عمران خان کی حکومت نے نہ صرف انتہائی سخت شرائط پر قرضہ حاصل کیا بلکہ بدقسمتی سے اپنی ہی حکومت کے دوران آئی ایم ایف سے معاہدہ کی بعض شرائط کی خلاف ورزی کر کے ملک کیلئے مسائل پیدا کئے۔ تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں اقتدار سے محرومی کے بعد ان کی دو صوبائی حکومتوں کے وزرائے خزانہ اور پی ٹی آئی کے سابق وفاقی حکومت کے وزیر خزانہ کی ایک ٹیلیفونک گفتگو منظرعام پر آئی جس میں یہ ”ذمہ دار” شخصیات اس امر پر اتفاق کررہی تھیں کہ آئی ایم ایف کو تحریری طور پر آگاہ کیا جانا چاہیے کہ عالمی مالیاتی ادارہ پی ڈی ایم کی حکومت سے قرضہ پروگرام کے حوالے سے مذاکرات کرے نہ قرضہ دے اس گفتگو میں اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ آئی ایم ایف کو بتادیا جائے کہ پاکستانی حکومت سے آئی ایم ایف کے قرضہ پروگرام پر مذاکرات اور کسی فیصلے میں پی ٹی آئی کی دو صوبائی حکومتیں شامل نہیں ہوں گی۔ اب عمران خان نے ایک بار پھر تقریباً ویسی ہی باتیں کی ہیں بظاہر ایسا لگتا ہے کہ پی ٹی آئی کی قیادت ذہنی طور پر سمجھتی ہے کہ ”ہم نہیں تو کوئی نہیں” اس ہم نہیں تو کوئی نہیں کی سوچ کے حوالے سے اگر ان کے سیاسی مخالفین کی اس بات سے اتفاق نہ بھی کیا جائے کہ پی ٹی آئی کی سوچ اصل میں یہ ہے کہ ”ہم نہیں تو پاکستان بھی نہیں” پھر بھی اس امر سے انکار ممکن نہیں کہ پی ٹی آئی نے سیاسی اختلافات میں تندبیانی اور دوسری منفی باتوں اور سستی الزام تراشی کو رواج دینے کے علاوہ خود کو ناگزیر سمجھ لیا ہے اور اس کے خیال میں ان کے سوا کسی کو حق حکمرانی حاصل نہیں۔
سوال یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی قیادت ہر معاملے میں انتہا پسندانہ طرزعمل کا مظاہرہ کیوں ضروری خیال کرتی ہے؟ پچھلے دور اور پھر تحریک عدم اعتماد کے بعد کے سولہ ماہ پر پھیلے پی ڈی ایم حکومت کے عرصہ اقتدار کے حوالے سے بحث نہ بھی اٹھائی جائے تو یہ عرض کرنا ازبس ضروری ہے کہ حالیہ انتخابات کا مینڈیٹ تقسیم شدہ ہے تینوں بڑی جماعتوں میں سے کسی کو بھی قومی اسمبلی میں سادہ اکثریت بھی حاصل نہیں ہوسکی۔ انتخابات میں دھاندلی کے حوالے سے تحریک انصاف کے بلندبانگ دعوے اور الزامات اپنی جگہ لیکن اس کی قیادت کو چاہیے کہ وہ میڈیا کے ذریعے عوام کو یہ ضرور بتائے کہ بالفرض اگر قومی اسمبلی کی 88 نشستیں دھاندلی کرکے اس (پی ٹی آئی) سے چھین لی گئی ہیں تو ان 88 نشستوں پر ہارنے والے یا ہرادیئے جانے والوں میں سے کتنے امیدواروں نے الیکشن کمیشن سے رجوع کیا؟ ہماری دانست میں سیاسی قیادت سے بات چیت کو نظریہ کی توہین اور اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش کا جواب نہ دیئے جانے کا شکوہ دونوں باتیں جمہوری روایات کے منافی ہیں۔ سیاسی عمل میں حصہ لینے والا شاید ہی کوئی سنجیدہ سیاستدان اور جماعت ہو جو اپنے مخالفین سے مذاکرات کے دروازے بند کرکے بیٹھ جائے۔ اسی طرح یہ امر بھی دوچند ہے کہ وہ جن الزامات کی وجہ سے اپنے سیاسی مخالفین کو تواتر کے ساتھ چور ڈاکو عوام دشمن قرار دیتے رہے ہیں اب ویسے ہی الزامات کا انہیں اپنے خاندان اور بعض سیاسی ساتھیوں سمیت سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ کرپشن کے ایک مقدمہ میں تو وہ سزا بھی پاچکے ہیں۔ ان کا اور ان کے حامیوں کا ان مقدمات کو سیاسی انتقام کا حصہ قرار دینے کی منطق کو درست مان لیا جائے تو ماضی میں بقول ان کے ایجنسیوں نے ان کے سیاسی مخالفین کی کرپشن کی جو فائلیں انہیں دیکھائیں یا میڈیا کے ایک ”ٹوڈی” حصے کے ذریعے عوام کو سنوائیں وہ کیسے درست اور الہامی قرار پائیں گی کیونکہ جن شخصیات پر ماضی میں اس نوعیت کے الزامات لگتے رہے ان میں سے بعض پر طویل عدالتی عمل میں الزامات ثابت نہیں ہوئے جن پر الزامات ابتداً ثابت ہوئے اور سزائیں دلوائی گئیں ہر دو کا مؤقف بھی یہی رہا کہ ہمارے دور اقتدار میں چونکہ اسٹیبلشمنٹ کی ناجائز فرمائشیں نہیں مانی گئیں اس لئے طاقتور اسٹیبلشمنٹ نے میڈیا کے ”ٹوڈی” حصے کے ذریعے انہیں بدنام کیا اور بعدازاں ”مینج” عدالتوں سے سزائیں د لوائیں۔
بہرطور یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اپنے اپنے وقت پر اسٹیبلشمنٹ کا مہرہ بن کر سیاسی مخالفین کو دیواروں سے لگانے والے اسٹیبلشمنٹ سے دھتکارے جانے کے بعد مظلوم بن کر دہائیاں دیتے دکھائی دیئے۔ چہرے اور کردار ضرور تبدیل ہوئے کہانی وہی ہے جو 76برسوں سے زیرزبر پیش کی تبدیلی کے بغیر سنائی جارہی ہے۔ اس سارے عرصے میں ا گر مسائل و مشکلات کے عذاب کسی نے بھگتے تو وہ صرف اور صرف عوام ہیں۔ عوام کی حالت ہر گزرنے والے دن کے ساتھ ”پتلی” ہوتی جارہی ہے فی الوقت صورت یہ ہے کہ سیاسی و معاشی عدم استحکام نے مملکت سمیت ہر خاص و عام کو سسکنے پر مجبور کردیا ہے۔ مہنگائی آسمان کو چھورہی ہے، زرمبادلہ کے ذخائر عدم توازن کا شکار ہیں دوست ممالک سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے ”ہاتھ پلہ” پکڑانے کو تیار نہیں۔ عالمی مالیاتی ادارے اپنی شرائط پر قرضے دیتے ہیں ان کی سخت شرائط وقت کے ساتھ مزید سخت ہوتی جاتی ہیں۔ خود عمران خان جب وزیراعظم تھے اور ان کی حکومت آئی ایم ایف سے مذاکرات کررہی تھی تو آئی ایم ایف کے حکام نے دوٹوک انداز میں کہا تھا کہ پاکستان کی افغان پالیسی کی وجہ سے امریکہ کے کہنے پر سخت شرائط عائد کی گئی ہیں۔ غور طلب امر یہ ہے کہ کیا تحریک انصاف کی حکومت اپنی افغان پالیسی کے مضر نتائج سے آگاہ نہیں تھی نیز یہ کہ کیا اس حکومت نے عوام سے کبھی اس بات پر معذرت کرنے کی ضرورت محسوس کی کہ ان کی خارجہ پالیسی خصوصاً دوحا معاہدہ کے برعکس طالبان نواز پالیسی اپنانے پر پاکستان کو بدترین مسائل کا سامنا کرنا پڑا؟ تلخ حقیقت یہی ہے کہ آج ملک اور عوام جن مسائل و مشکلات سے دوچار ہیں ان کا بڑا حصہ تحریک انصاف کی پالیسیوں کا تحفہ ہے۔
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ”ہم نہیں تو کوئی نہیں” کی سوچ سے نجات حاصل کرنا ہوگی کیونکہ ماضی میں تحریک انصاف نے 2013ء کے انتخابات کے نتائج پر جو موقف اپنایا تھا وہ بعدازاں غلط ثابت ہوا مگر اس مؤقف کی وجہ سے ملک کو بے پناہ نقصان پہنچا۔ آج کے حالات میں بھی ضرورت اس بات کی ہے کہ صرف تحریک انصاف نہیں بلکہ ملک کی تمام سیاسی جماعتیں اور ان کے قائدین عدم برداشت اور میں نہ مانوں کی سوچ سے نجات حاصل کر کے آگے بڑھیں۔ انتخابات کے نتائج یقیناً الہامی ہرگز نہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان کی انتخابی تاریخ میں ایک بھی انتخابات ایسے نہیں ہوئے جو الزامات کی زد میں نہ آئے ہوں یا اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ نے کسی خاص جماعت یاایک دو جماعتوں کی مدد نہ کی ہو البتہ یہ حقیقت ہے کہ دھاندلیوں کی شکایات پر نفرتوں اور عدم برداشت کو اصولی سیاست قرار دینا درست نہیں ہوگا۔ عرض کرنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ ہماری سیاسی قیادت کو چار اور سلگتے مسائل، عوام کی حالت زار، ملک کی معاشی صورتحال اور دوسرے مسائل کو بطور خاص مدنظر رکھنا چاہیے نہ صرف رکھنا چاہیے بلکہ ان مسائل کا حل تلاش کرنے کیلئے برداشت کرو برداشت کئے جائو کے اصول پر باہمی تعاون کی سوچ پر عمل کرنا ہوگا تاکہ اشرافیہ کی بجائے عام شہری کے بھی حالات بدلیں۔ امید واثق ہے کہ ان معروضات پر ٹھنڈے دل سے غور کیا جائے گا۔

مزید پڑھیں:  ہراسانی کی کہانی طویل ہے