دستور کے مطابق کام کرنے کی ضرورت

میڈیا میں آنے والی اطلاعات کے مطابق پاکستان کے صدر عارف علوی قومی اسمبلی کے افتتاحی اجلاس کو اس بنیاد پر موخر کر رہے ہیںکہ ایوان تاحال نامکمل ہے۔بنا بریں انہوں نے وزارت پارلیمانی امور کی اجلاس بلانے کی سمری پر دستخط نہیں کئے ہیں۔دوسری طرف ایوان صدر سے اس بارے میں مکمل خاموشی ہے اور ابھی تک یہ نہیں بتایا گیا کہ قومی اسمبلی کا اجلاس کب بلایا جائے گا یا کیوں موخر کیا جا رہا ہے۔ آئین کے مطابق صدر پر لازم ہے کہ وہ انتخابات کے انعقاد کے21روز بعد قومی اسمبلی کا اجلاس بلائے۔ آئین کی شق اڑتالیس کے مطابق صدر پر لازم ہے کہ وہ اسمبلی کا اجلاس بلانے کی تجویز پر عمل کرے اور اس کے پاس کوئی قانونی راستہ نہیں ہے کہ وہ اس عمل کو موخر کر سکے یا اس تجویز سے ہٹ جائے۔ صدر اسمبلی کا اجلاس بلانے کی تجویز واپس نہیں بھیج سکتا اور آئین کا آرٹیکل91اس سلسلے میں صدر کو کوئی اختیار نہیں دیتا۔اگر صدر اسمبلی کا اجلاس بلانے کی تجویز پر دستخط کرنے سے انکار کر دیتا ہے تو پھر قومی اسمبلی کا سیکریٹری اجلاس بلانے اور اس کا گزٹ نوٹیفیکیشن جاری کرنے کا مجاز ہے۔یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ صدر عارف علوی آئینی امور کی انجام دہی پر تنقید کی زد میں ہیں بلکہ اس سے پہلے انہوں نے 2022میں اس وقت کے نو منتخب وزیراعظم شہباز شریف سے بھی حلف لینے سے انکار کیا تھا۔صدر علوی کے آئینی امور سے متعلق فیصلوں کے حوالے سے مسلم لیگ نواز، پیپلز پارٹی اور ان کی اتحادی جماعتیں اکثر ان کو تنقید کا نشانہ بناتی رہی ہیں اور انہیں صدر مملکت سے زیادہ پاکستان تحریک انصاف کا ورکر بننے کا طعنہ بھی دیتی رہی ہیں۔ صدر ڈاکٹر عارف علوی نے موقف اختیار کیا ہے کہ جب تک تمام جماعتوں کو مخصوص نشستیں مختص نہیں کر دی جاتیں اسمبلی نامکمل رہے گی۔ خیال رہے کہ عارف علوی نے تاحال سمری منظور یا مسترد نہیں کی صرف زبانی موقف سامنے آیا ہے۔عا م انتخابات میں نتائج کی تبدیلی اوراس سے پیدا شدہ صورتحال پر ملک میں غیر یقینی اور شکوک و شبہات کی جو فضا قائم ہے اس کے اثرات توایوان کی مدت پوری ہونے تک متوقع ہیں علاوہ ازیںبھی ایوان کے اندر حزب اختلاف کی طرف سے سخت موقف اور شور و شرابا کی کیفیت طاری رکھنے کی صورتحال متوقع ہے جس کا مظاہرہ پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں سامنے آیا افسوسناک امر یہ ہے کہ انتخابات کے انعقاد کے بعد عوام کی چنیدہ حکومت کے قیام اورملک میں سیاسی تقطیب میں کمی آنے کی جو توقعات وابستہ کی جاتی رہی ہیں وہ پوری ہوتی نظر نہیں آرہی ہیں ایسے میں صدر مملکت کی جانب سے دم رخصت بھی اسمبلی کا اجلاس طلب کرکے نئی حکومت کے قیام کے آئینی مراحل طے کرنے کاعمل شروع کرنے میںغیر اعلانیہ رکاوٹ اور تاخیر ایک اور کشمکش کاباعث امر ہے اس ضمن میں صدرمملکت کاغیر اعلانیہ موقف کس حد تک صائب ہے اس سے قطع نظربہرحال ایک آئینی اورقانونی عمل سے گریز احسن عمل نہیں قبل ازیں بھی دستور میں موجود دیگرطریقہ کار اختیار کرکے معاملات چلائے گئے مرکز میں صدرمملکت کی جانب سے قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے میں تاخیر کے دیگر معاملات اور صورتحال پراثر ات مرتب ہونا فطری امر ہو گابنابریں اس ضمن میں کسی فریق کانہیں بلکہ دستور کی پابندی ہونی چاہئے اور اگر واقعی اسمبلی نامکمل متصور ہوتی ہے اور آئینی ضرورت اور شرط اس کی تکمیل ہے تو پھراس میں جس فریق کی طرف سے تاخیر کامظاہرہ کیا جا رہا ہے اسے اپنے طرزعمل پرنظرثانی کرنی چاہئے البتہ اس بات کی نظیر موجود ہے کہ ایوان میںکافی اراکین کی غیر موجودگی استعفوں اور نشستیں خالی ہونے کے باوجود آئینی اورحکومتی معاملات چلائے جاتے رہے اب تونئے صدر مملکت کا انتخاب بھی ہونا ہے ایسے میں بظاہر تو یہی لگتا ہے کہ انتخابات کے بعد ملک میں یکطرفہ طور پر معاملات چلانے کا دور آنے والاہے ایسے میںحزب اختلاف کو اپنی صفوں کی ترتیب ہی پر نظر رکھنے کی ضرورت پہلے سے زیادہ ہو گی ایسا اس وقت ہی ممکن ہوسکے گاجب آئینی معاملات پر صرف سیاسی نظرسے نہیں بلکہ آئینی اور قانونی طور پربھی گہری نظررکھی جائے نئی حکومت کی بھی ذمہ داری ہو گی کہ وہ یکطرفہ طور پر معاملات چلانے کی بجائے حزب اختلاف کو بھی اہمیت دے اور خاص طور پر آئینی و دستوری معاملات کو مقدم رکھے اور ملک کوجمہوری انداز میں چلایا جائے ایسا اس وقت ہی ممکن ہوسکے گا جب حزب اختلاف اور حکومت دونوں کو اپنی ذمہ داریوں کا احسن احساس ہو اور وہ آئینی وجمہوری اقدارکے مطابق ساتھ چلنے پر آماد ہ ہوں اور یکطرفہ فیصلوں سے گریز کیا جائے۔

مزید پڑھیں:  محنت کشوں کا استحصال