اک ہجر جو ہم کو لاحق ہے

پاکستان کو بنے ہوئے سات دہائیوں سے زیادہ کا عرصہ ہوگیا ہے ۔ جب سے یہ ملک بنا ہے تب سے یہ مسلسل نازک دور سے گزرر ہا ہے ۔ نام نہاد جمہوریت اور آمریت یہاں وقفوں وقفوں سے رائج رہی ہیں ۔ ہم اتنے عرصے میں اپنا خالص آئین و قوانین نہ بنا سکے ۔ اتنے عرصے میں ہم کسی بھی مشترکہ قومی مفاد اور ایجنڈے پر متفق نہ ہوسکے ۔ تمام صوبوں میں یکساں نظام تعلیم کا بندوبست نہ کرسکے ۔ ہم پولیس ، پٹوار کو ٹھیک نہ کرسکے ۔ ہم نے ہردور کے بدمعاش اور بدعنوان کو اپنا سربراہ چنا ۔ہم نے جمہوری اقدار کو پروان چڑھنے نہیں دیا ۔ اس ملک میں سیاسی جماعتیں موروثی خاندانی جماعتیں بن کر رہ گئی ہیں ۔ اس ملک میں جہاں جہاں جو جو وسائل ہیں وہ ان کے مقامی افراد کی دسترس سے دور کردئیے گئے ہیں ۔ یہاں جو بھی آتا ہے وہ اپنی ایک ڈاکٹرائن لے کر آتا ہے اور اس کی آڑ میں ملک لوٹ کر دوسرے کو باری دے دیتا ہے ۔ چند برس بعد پھر اس ملک کو لوٹنے پہنچ جاتا ہے ۔ اس ملک کا ہر سرکاری اہلکار ریاست کا خیر خواہ نہیں ہے بلکہ یاتو وہ کسی اور کا وفادار ہے یا پھر اپنے فائدے کا اسیر ہے ۔ یہاں جو جتنا زیادہ کرپٹ ہے وہ سب سے زیادہ معزز ہے ۔ عجیب ملک ہے جس کے یونیورسٹی گریجویٹ سے اگر پوچھیں کہ اس نے آئین پاکستان یعنی دستور پاکستان پڑھا ہے تو اس کا جواب نفی میں ملتا ہے ۔ یہاں کسی کو اپنے حقوق اور فرائض کا علم نہیں ہے ۔ لاکھوں پولیس کی موجودگی میں جرائم کا بازار گرم ہے ۔ ہزاروں ٹریفک کے اہلکاروں کی موجودگی میں ہر روڈ اور بازار اور چوک پر ٹریفک جام ہے ۔ ہزاروں انتظامی افسران و ماتحتان کی موجودگی میں بازار میں کوئی چیز خالص اور اپنی اصل قیمت پر نہیں ملتی ۔ہر فٹ پاتھ اور ہر کونے میں بھتہ مافیا سرگرم ہے ۔ ملک کے چند افراد چینی بنانے پر قابض ہیں ان کی مرضی کہ وہ چینی کس قیمت پر فروخت کرتے ہیں ۔ ان کو کوئی روکنے والا نہیں ہے بلکہ ان کو اس عمل میں عدالتی اور حکومتی معاونت فراہم کی جاتی ہے۔ یہاں آپ بجلی اور گیس کا میٹر خرید کر پھر بھی ہر مہینے اس کا کرایہ دیتے ہیں اور دس برس کا یہ کرایہ جمع کیا جائے تو اتنے پیسوں میں سو میٹر اور خریدے جاسکتے ہیں ۔ یہاں تنخواہ میں پہلے سے ہی ٹیکس کٹ جاتا ہے ۔ پھر بجلی کے بل میں سوطر ح کے ٹیکس ، گیس اور ٹیلی فون کے بل میں ٹیکس ، بازار سے کوئی شے خریدیں تو اس پر ٹیکس ، ہوٹل میں کھانا کھائیں تو اس پر ٹیکس ۔ گاڑی چلائیں تو اس پر ٹیکس ، گاڑی میں پیٹرول ڈالیں تو اس پر ٹیکس ۔گھر خریدیں تو اس پر ٹیکس ، گھر فروخت کریں تو اس پر ٹیکس ،علاج پر پیسے دیں ، یہاں تک کہ اب تو کوئی مر جائے تو اس کا ڈیتھ سرٹیفکیٹ مانگیں تو اس پر بھی ٹیکس ہے ۔ شہروں میں قبروں تک پر ٹیکس ہے ۔ ایسا دنیا میں کہاں ہوتا ہے ۔ یہ ٹیکس پاکستان کے عوام کے لیے ہیں ۔ اس ملک پر حکومت کرنے والے اور اشرافیہ کوئی ٹیکس نہیں دیتی ۔ وہ زمیندار اور جاگیر دار جن کی لاکھوں ایکڑ زمین ہے اس پر کوئی ٹیکس نہیں ہے ۔ یہ دنیا کا واحد ملک جہاں سمگلنگ کی کھلی اجازت ہے ۔ کسی بھی بازار چلے جائیں آپ کو غیر ملکی سامان ملے گا جو سمگلنگ کے ذریعہ ملک میں آتا ہے ۔ ملک میں ڈیزل کا بیشتر حصہ سمگلنگ سے آتا ہے ۔ یہ ایسا ملک ہے جہاں کچھ حصوں پر تو اس کا قانون کام ہی نہیں کرتا یعنی وہاں بغیر ٹیکس اور کسٹم کے گاڑیاں چلتی ہیں ۔ ٹھیکیدار اور دیگر لوگ کوئی ٹیکس نہیں دیتے لیکن عجیب بات یہ ہے کہ وہاں کے سرکاری ملازمین سے ٹیکس تنخواہوں سے کاٹ لیا جاتا ہے ۔اس ملک میں جو اقتدار میں آتا ہے تو اس کے پاس سائیکل تک نہیں ہوتی مگر جب چند برس بعد وہ اقتدار کی کرسی سے رخصت ہوتا ہے تو اس کے اثاثوں میں اربوں کا اضافہ ہوتا ہے ۔ یہاں لوگ منتخب ہوکر قانون ساز اسمبلی میں جاتے ہیں ۔ اور ان کا عملی کام ترقیاتی سکیمیں ، اور نوکریاں دینے دلانے کا ہوتا ہے ۔ دنیا کی کونسے اسمبلی ممبران ہیں جو ترقیاتی کاموں میں حصہ دار ہوتے ہیں یا لوگوں کو ملازمتیں دینے یہ ٹھیکے لینے اور دینے میں شریک ہوتے ہیں ۔ یہاں کی بیوروکریسی آئین پاکستان کی پاسداری میں ملکی انتظام چلانے کی جگہ سیاست دانوں کی خواہشوں کی تکمیل میں جتے رہتے ہیں ۔ یہاں کی عدالتوں میں لوگوں کی تیسری نسل تک مقدمے چلتے رہتے ہیں لیکن ان کا فیصلہ نہیں ہوتا ۔ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں مقدموں کی پیشی کے لیے مہینوں اور برسوں انتظار کیا جاتا ہے ۔ مگر سیاسی تماشوں کے لیے یہ عدالتیں پیش پیش ہوتی ہیں ۔ یہاں کی عدالتیں اپنا کوئی حکم نہیں منوا سکتیں ۔ سپریم کورٹ نے حکم دیا ہے کہ تمام سرکاری ، عدالتی اور نشریاتی کام ارد و میں ہوں گے ۔ دس برس ہونے کو ہیں سپریم کورٹ اس پر عمل درآمد نہیں کرسکا ۔ پاکستان میں تو چھوڑیں اپنے ہی ادارے میں اس پر مکمل عمل درآمد نہیں کرپائے ۔ ہم کبھی بھی کوئی قابل عمل خارجی پالیسی نہیں بناپائے ۔ بیرون ملک پاکستان کی سفارت خانوں میں جائیں تو آپ کو احسا س ہوگا کہ وہاں پر پاکستانیوں کو کوئی سہولت مہیا نہیں ہوتی اور نہ ہی یہ سفارت خانے کوئی کام کرتے ہیں ۔ دو ہزار بارہ میں مجھے جنوبی کوریا میں پاکستانی سفارت خانے جانے کا اتفاق ہوا ۔ وہاں جاکر پتہ چلا کہ ایک کورین خاتوں اہلکار کے علاوہ باقی صاحبان اپنی مرضی کے مالک ہیں جب چاہیں دفتر آئیں اور جب چاہیں نہ آئیں ۔ یہی تجربہ مجھے ترکی میں ہوا ۔ یعنی ہم نے اندرون ملک اور بیرون ملک دونوں جگہ اس ملک کو آگے بڑھنے نہیں دیا ۔ ہم نے پرائے پھڈوں میں سہولت کاری کی انتہاکردی ۔ اپنی ساری معیشت اور ترقی کو داؤ پر لگا دیا ۔قبائلی علاقوں کو تعلیم اور سہولیات سے دور رکھا ۔ ان کو سمگلنگ پر لگا دیا ۔ دوسرے ملک کے لاکھوں باشندوں کو اس ملک میں سب کچھ کرنے کی اجازت دے دی یہاں تک کہ ان کے لیے آئین پاکستان کو بھی ایک طرف رکھ دیا ۔ جس کے نتیجے میں یہاں ہزاروں لوگ شہید ہوئے ۔ املاک تباہ ہوئیں ۔ خوف کا ماحول گزشتہ چار دہائیوں سے یہاں کے مکینوں کا پیچھا نہیں چھوڑ رہا ۔ منشیات اور اسلحہ ان کی وجہ سے پاکستان کے ہر گھر میں پہنچ چکا ہے ۔ اس کا نتیجہ دیکھ لیں خیبر پختونخوا اور بلوچستان جس حال میں ہیں اسی کی وجہ سے ہیں ۔ ملک کے حکمران قرض پر قرض لیے جارہے ہیں ۔جو بھی آتا ہے وہ قیمتی ملکی املاک بیچ دیتا ہے ۔ ہزاروں ملازمین کے ہوتے ہوئے کراچی پورٹ پر شیپنگ کاکام دوبئی کی پورٹ شیپنگ کمپنی کے حوالہ کردیا گیا ۔یہ ملک جس طرح قرضوں کے بوجھ تلے دب رہا ہے اس سے یہ اندازہ لگا نا مشکل نہیں ہے کہ عنقریب اس پر برائے فروخت کا لیبل لگ جائے گا ۔ یہ سب قرضے ہم لے کیوں رہے ہیں اور یہ جاتے کہاں ہیں کسی کو نہیں پتہ ۔ شرح سود بائیس فیصد رکھ کر ہم اس ملک کو گنگال کررہے ہیں ۔ لوگ باہر سے دو فیصد پر قرضے لیکر یہاں کے حکومتی بانڈز میں سرمایہ کاری کرکے بیس فیصد منافع کماتے ہیں ۔ آخر پاکستان میں ایسا کونسا کام ہے جس سے بیس فیصد منافع کما کر دے رہے ہیں ۔ اس ملک کے انتظامی افسران کے شاہانہ خرچے اور مراعات دیکھ لیں تو حیرت ہوتی ہے کہ پاکستان کا سارا نظام خراب ہے مگر اس کے انتظام پر مامور لوگ مزے کررہے ہیں ۔ جو الیکشن جیت کر آتا ہے وہ ملکی خزانے پر لاکھوں مزید لوگوں کا بوجھ ڈال کر رخصت ہوتا ہے ۔ دنیا ڈیجیٹل ہورہی ہے ۔ مصنوعی ذہانت پر منتقل ہورہی ہے ۔اور ہم ہیں کہ پیچھے کو دوڑ رہے ہیں ۔ 1857کے بعد سے ہندوستان کے مسلمانوں کو ترقی کی کوئی سمت نہ مل سکی اور انگریزوں سے آزادی اور ہندووں سے الگ ہوکر بھی ہمیں کوئی راستہ نہیں مل رہا ۔ راستہ آسان ہے اور سادہ ہے ۔ ملک کی ترجیحات کا تعین کیا جائے ۔ وسائل کا حقیقی استعمال شروع کیا جائے۔ تعلیم پر سرمایہ کاری کی جائے ۔ حکومتی خرچے کم سے کم تر کی سطح پر لائے جائیں ۔ ملک پر بوجھ غیر ملکیوں کو فوراً نکالا جائے ۔ اور یہ جو ہجر ہم کو لاحق ہے اب اس کا خاتمہ کیا جائے اور اس کو دہرانا بند کیا جائے ۔ آگے بڑھا جائے ۔ دنیا کے ساتھ تجارت کا تعلق رکھا جائے ۔ لوگوں کو جینے دیا جائے ۔ اورہر ادارہ بس صرف اپنا کام کرے ۔تو ہم بھی آگے بڑھ سکتے ہیں ترقی کرسکتے ہیں ۔

مزید پڑھیں:  ایک ہم ہی تو نہیں ہیں جو اٹھاتے ہیں سوال