اس طرح برسات کا موسم کبھی آیا نہ تھا

موسم نے ا نگڑائیاں لینی شروع کر رکھی ہیں محکمہ موسمیات والوں نے اس حوالے سے پیشگوئی بھی کی تھی ویسے تو امسال جن دنوں میں جھڑی لگ جاتی ہے ان دنوں میں وطن عزیز میں خشک سالی نے اپنا قیام کچھ زیادہ ہی بڑھا لیا تھا ، اور ایک جانب خاص طور پر پنجاب میں فوگ کی صورتحال خطرے کے نشان کو کراس کر گئی تھی باقی ملک میں بھی حالات کچھ حوصلہ افزائی نہیں تھے ، یہاں تک کہ ہمارے ہاں بھی دھند اورکہرے نے دبیز چادر پھیلا کر گلے اور سانس کی بیماریوں کو بہت بڑھا دیا تھا ، ایسے میں سردیوں میں عموماً بارشوں کے دنوں میں جو جھڑی لگ جاتی ہے اس کے لئے لوگوں کی آنکھیں ترس گئی تھیں ، اور صورتحال امیر خسرو کے اس شعر کے ساتھ کچھ کچھ مطابقت رکھتی تھی کہ
ابروباران و من ویار ستادہ بہ وداع
من جدا گر یہ کناں ، ابر جدا یار جدا
اس شعر کو احمد فراز نے کیا خوبصورت انداز میں اردو کاجامہ پہنایا ہے کہ بدہ اش اش کر اٹھتا ہے
یہ جدائی کی گھڑی ہے کہ جھڑی ساون کی
میں جداگر یہ کناں ، ابر جدا یار جدا
ویسے تو اگر یہ ساون کا موسم ہوتا تو بات کسی اور اندازمیں کہہ کر لطف اندوز ہو جا سکتا تھا جیسے کہ نواب مرزا داغ نے کہا تھا کہ
ذرا چھینٹا پڑے تو داغ کلکتہ نکل جائیں
عظیم آباد میں ہم منتظر ساون کے بیٹھے ہیں
بات ساون کی ہو یا پھر سردوں کے بارش کی جھڑی کی ، ہم اہل پشاور ہر دو موسموں میں اس سے محروم ہی رہتے ہیں کیونکہ جہاں گرمی کے موسم میں ساون کی بارشیں وادی پشاور کو ترساتی رہتی ہیں اوروہ جو ہندوستان کے وسیع و عریض علاقوں میں ساون اپنا رنگ دکھاتے ہوئے اپنا سلسلہ درار کرتا ہے اور پاکستان کے پنجاب بھر میں برستا ہوا پختونخوا کے اطراف بھی نوشہرہ تک آن برستا ہے ، مگر پشاور میں ”جھلک دکھلاجا” کی صدائیں اوردعائیں صرف ہاتھ اٹھانے تک محدود ہو جاتی ہیں کیونکہ ساون کے جو گابھن بادل نوشہرہ سے نیچے پشاور کی جانب رخ کرتے ہیں انہیں پبی کے جنوب میں موجود چراٹ کے پہاڑی سلسلے روک دیتے ہیں اوراہل پشاور پشکال کے پسینوں سے ہی دل بہلاتے رہتے ہیں۔ البتہ چاہیں تو یہ الفاظ ضرور گنگنا کر دل پشوری کرسکتے ہیںکہ
ساون میں پڑے جھولے
تم بھول گئے ہم کو
ہم تم کو نہیں بھولے
بات ہو رہی تھی ان دنوں جب سردی کااختتام اورگرمیوں کی آمد کے درمیان بس کچھ ہی دن رہ گئے ہیں اچانک بارشوں نے آکر یاد دلا دی ہے کہ ”میں ہوں نا” ویسے تو بارشوں خصوصاً سردیوں کی بارشوں کے حوالے سے ایک پشتو ٹپہ بھی بہت مقبول ہے جسے کئی گلوکارائوں نے گایا ہے وہ کچھ یوں ہے کہ
نرے باران دے پاس پہ لوڑئے ورہ وینہ
جورے کور م د قسمت راوڑے دینہ
جانانہ لاس راکڑہ چہ دواڑہ سرہ زونہ
یہ ایک ایسی خاتون کے دل سے اٹھنے والی فریاد ہے جو پہاڑیوں کے دامن میں پلی بڑھی جوان ہوئی مگر شادی کے بعد اسے نیچے میدانی علاقے میں بسرام پر مجبور ہونا پڑا اور جب پہاڑیوں پر بارشوں اور برف باری کا سلسلہ شروع ہو جاتا تو اسے اپنے آبائی علاقے کے موسم کی یاد آجاتی ہے اور وہ میدانی علاقے کی خشک سالی کے مقابلے میں آبائی علاقے کے موسم کو یاد کرکے اپنے مجازی خدا کو کہتی ہے کہ اوپر پہاڑیوں پر ہلکی ہلکی بارش شروع ہو چکی ہے مجھے قسمت پہاڑوں سے ترائی کی جانب لائی ہے تو اے میرے شریک حیات ، آئو کہ ہم بھی ہاتھوں میں ہاتھ دے کر پہاڑوں کی سمت جا کر بارش سے لطف اندوز ہوں ، بارشوں کی دعائیں اپنی جگہ مگر جن لوگوں کے مکان کچے ہوتے ہیں وہ بارش کی دعائیں مانگنے والوں سے یہی التجا کرتے ہیں کہ کچا میرا مکان ہے کچھ تو خیال کر ، ایک اور شاعر جاذب قریشی نے بھی تو کہا تھا کہ
کیوں مانگر ہے ہوں کسی بارش کی دعائیں
تم اپنے شکستہ درو دیوار تو دیکھو
جس وقت یہ کالم تحریر کیا جا رہا تھا ،پشاور میں ملک کے اکثر حصوں کی طرح جھڑی لگی ہوئی ہے بارش کبھی تیزاورکبھی ہلکی ہوجاتی ہے جس سے سردی نے مراجعت کرتے ہوئے لوگوں کو ایک بارپھرگرم کپڑے پہننے پر مجبور کردیا ہے اور ملک کے اکثر علاقوں میں سیلاب کی سی صورتحال پیدا کرتی ہے گزشتہ روز گوادر کی صورتحال کے بارے میں ٹی وی چینلز پر جوخبریں سامنے آئیں ان کے مطابق تو گوادر اورملحقہ علاقے تقریباً پانی میں ڈوب چکے ہیں ، کراچی ، لاہور وغیرہ سے بھی پریشان کن خبریں آرہی ہیں خود ہمارے ہاں پشاو رمیں نکاسی آب کی خطرناک صورتحال کی جانب حالات بڑھ رہے ہیں بیشتر سڑکیں پانی کی زد میں ہیں اور اگر یہ جھڑی ایک آدھ دن اورلگی رہی جس کی پیشگوئی محکمہ موسمیات والے پہلے ہی کر چکے ہیں تو عین ممکن ہے کہ زیادہ تر لوگ گھروں میں مقید ہو کر رہ جائیں کیونکہ جب سڑکیں پانی سے اٹ جائیں گی اور نکاسی آب کا نظام مکمل طور پر ناکارہ ہوجائے گا تو پھر ماسوائے ایمرجنسی کے کس میں اتنی ہمت ہو گی کہ وہ گھر سے باہر نکلے پھر یار لوگ ملنے ملانے سے گریزاں ہونے پر مجبور ہوں گے اس صورتحال میں ہمیں اپنا ہی ایک قطعہ یاد آگیا ہے ملاحظہ فرمایئے
سب گریزاں ہیں ، دوست اوراحباب
دور سے ہی دعا، سلام جناب
کون اب قرب کی کرے خواہش
وصل کے سب بدل گئے آداب
اگرچہ جدید ایجادات نے کم از کم اتنا ضرور کردیا ہے کہ وہ جو کسی زمانے میں محض خط(مکتوب) کوبھی آدھی ملاقات سے تشبیہ دی جاتی تھی اور یار لوگ خطوط کے تبادلے سے نصف ملاقات کا لطف اٹھا لیتے تھے ، اب انٹرنیٹ اور سمارٹ فون پرویڈیو کالزنے ملاقات کوسو فیصد نہیں تو نوے (90) فیصد کامیاب ضرور کردیا بشرط یہ کہ ”سرکار”کسی وجہ سے انٹرنیٹ کو معطل نہ کردے ، اگرچہ آج سیاسی صورتحال پر سمع خراشی کاارادہ تھا مگر موسم کے تیور دیکھ کر محکمہ موسمیات کی طرح موسمی حالات پر تبصرہ کرنے پر مجبور ہونا پڑا قتیل شفائی نے بھی تو کہا تھا ناں کہ
دور تک چھائے تھے بادل اورکہیں سایہ نہ تھا
اس طرح برسات کا موسم کبھی آیا نہ تھا
سو یہ جوسیاسی بھونچال آیا ہواہے اسمبلیوں میں شور وغوغا ، ایک دوسرے کو نیچا دکانے ، طعنے مارنے ، یہاں تک کہ خواتین کے حوالے سے نامناسب جملے بازی شرمناکی کی حدود پار کرتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے اس کوقابل مذمت کے جملوں میں لپیٹتے ہوئے اس صورتحال پر تبصرہ کسی اور وقت پراٹھا رکھتے ہیں کہ بقول شاعر
میں نے پوچھا مری جاں کیسے ہو؟
اس نے ہولے سے کہا ، خوفزدہ

مزید پڑھیں:  مذاکرات ،سیاسی تقطیب سے نکلنے کا راستہ