رمضان کے تقدس کے تقاضے

رمضان المبارک کے مقدس مہینے کا تقدس اس بات کا متقاضی ہے کہ ملک بھر میں عمومی طور پر اشیاء صرف کی قیمتوں میں مناسب کمی کر کے عوام کو ریلیف دیا جائے کیونکہ جس رفتار سے مہنگائی میں اضافہ ہو رہا ہے بلکہ ہر سال اسی مقدس مہینے میں تاجر اشیاء صرف کی قیمتوں میں مزید اضافہ کر کے عوام پر مہنگائی مسلط کر دیتے ہیں ،تاہم حکومت کی جانب سے رمضان پیکج کے نام پر یوٹیلیٹی سٹورز کے ذریعے عام مارکیٹ کے مقابلے میں سستی اشیاء کی فراہمی سے کسی نہ کسی حد تک عوام کو مہنگائی سے نجات دلانے کا بندوبست کیا جاتا ہے( معیار پر بھی سوال اٹھتے رہتے ہیں ) لیکن تازہ خبریں جو آج کل عوام کی پریشانی کا باعث بن رہی ہیں وہ یوٹیلیٹی سٹورز میں بھی مہنگائی بڑھنے کے امکانات کے حوالے سے ہیں اور جب یہ سطور تحریر کی جا رہی ہیں اخبارات میں ایک خبر شائع ہوئی ہے کہ اب کی بار یوٹیلیٹی سٹورز پر پہلے سے مہنگی چینی مزید مہنگی ہونے کا خدشہ ہے کیونکہ رمضان المبارک سے قبل20 ہزار میٹرک ٹن چینی آخری ٹینڈر کے مقابلے میں 17 روپے 10 پیسے مہنگی خریدی گئی ہے ،جس کے بعد ظاہر ہے کہ کم قیمت پر چینی کی فراہمی کیوں کر ممکن ہو سکتی ہے، مہنگی چینی خریدنے کی وجوہات کیا ہیں اس بارے میں حکومت وضاحت کرے کہ کیوں ایسی صورتحال پیش آئی اور بروقت سستی چینی کی خریداری کیوں کر ممکن نہ ہو سکی۔

مزید پڑھیں:  دو ملائوں میں مرغی حرام

دودھ مہنگا مگر۔۔۔۔
صوبائی دارالحکومت پشاور کے ایک علاقے سیٹھی ٹاؤن سے خبر آئی ہے کہ وہاں شیر فروشوں نے دودھ کی قیمت میں اضافہ کر کے فی لیٹر ڈھائی سو روپے کر دی ہے، اس حوالے سے یہ معاملہ صرف سیٹھی ٹاؤن تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ شہر کے مختلف علاقوں میں نہ صرف شیر فروشوں بلکہ قصائیوں کا معاملہ بھی خاصہ توجہ طلب ہے جو من مانیاں کرتے ہوئے از خود ہی گوشت اور قیمہ کے نرخوں میں بتدریج اضافہ کرتے رہتے ہیں ،اور پہلے یہ اضافہ صرف رمضان اور عید الاضحی کے مواقع پر کیا جاتا تھا مگر اب مہنگائی مسلط کرنے کیلئے کسی خاص موقع کا انتخاب نہیں کیا جاتا، اس وقت گوشت اور قیمہ کے من مانے نرخ بھی بازار میں روبہ عمل ہیں، بالکل ویسے ہی جیسے کہ نانبائی بھی جب چاہیں روٹی ،پراٹھے اور روغنی کی قیمت بڑھا دیتے ہیں یا پھر وزن مزید کم کر کے روٹیوں کی جگہ پاپڑ نما روٹیاں بیچ رہے ہیں، جہاں تک دودھ کی قیمت میں اضافے کا تعلق ہے تو اس حوالے سے بھی عوام کو دوہرے عذاب میں گرفتار کیا جا رہا ہے، یعنی ایک تو دودھ دہی کی قیمت بڑھتی رہتی ہے اور دوسرے یہ کہ کیمیکل ملے دودھ کی بھی بھرمار ہے جو انسانی صحت کیلئے انتہائی مضر اور خطرناک بلکہ جان لیوا بیماریوں کا باعث ہے مگر جو ادارے ان کی جانچ پڑتال پر مامور ہیں وہ ”بوجوہ” غفلت کا شکار ہیں اور عوام کو دوہرے عذاب سے گزرنا پڑتا ہے۔

مزید پڑھیں:  صنفی تفریق آخر کیوں ؟