مہنگائی اور لاحاصل و ناکام اقدامات

رمضان المبارک میں اشیاء خوردونوش کی قیمتوں کو قابو میں لانے کے لئے 24اشیاء کے مارکیٹ میں نرخ روزانہ مانیٹرنگ کے بعد چیف سیکرٹری آفس پشاورطلبی کا اقدام بشرط عملی و حقیقی اصلاح سنجیدہ امر ہے مینجمنٹ اینڈ ریفارمز یونٹ خیبر پختونخوا کی جانب سے تمام اضلاع کی مانیٹرنگ ٹیموں اور ڈپٹی کمشنرز کو ارسال مراسلے میں کہا گیا ہے کہ 21اشیاء خوردونوش کی قیمتیں مارکیٹ میں نگرانی کے بعد ارسال کی جائیں ان میں بڑا گوشت، چھوٹا گوشت، مرغی، انڈے، دودھ، دہی، سیلا اور کائنات چاول، مٹر، دال چنا، دال ماش، دال مونگ، دال مسور، لوبیا، آٹا، چینی، بیسن، چینی، ٹماٹر، آلو، پیاز، سیب، کیلا، امرود اور روٹی شامل ہے ۔ ٹیموں اور ضلعی انتظامیہ کو ہدایت کی گئی ہے کہ روزانہ شام 5بجے تک مارکیٹ ریٹ کے مطابق قیمتوں کو سسٹم میں اپ لوڈ کیا جائے تاکہ چیف سیکرٹری کو روزانہ کی صورتحال سے متعلق جامع رپورٹ پیش کی جا سکے ۔دریں اثناء صوبائی وزیر خوراک ظاہر شاہ طورو نے بھی رمضان المبارک میں شہریوں کو ریلیف دینے کی خاطر شہر ہشت نگری’ کریم پورہ’ رام پورہ گیٹ اور شہر کے دیگر بازاروں کا اچانک دورہ کیا ۔ان تمام مساعی کے باوجود بھی کسی بھلائی کی توقع کم ہی باقی ہے اس لئے کہ مہنگائی ذخیرہ اندوزی ناجائز منافع خوری وہ الفاظ بن گئے ہیں جو عوامی لغت میں معنی و مفہوم لاینحل ناممکن کے مترادف اور ہم معنی گردانے جاتے ہیں اور اس پر معاشرے کے تمام طبقات اور مکتبہ ہائے فکر کا کامل اتفاق ہے اس کی وجہ ماضی کی حکومتوں کی ناکامیاں اور طفل تسلیاں ہیں اگرچہ صوبے میں نئی حکومت کے قیام میں ابھی زیادہ دن نہیں گزرے لیکن محولہ مسائل و معاملات ایسے نہیں کہ اس کے لئے حکومت کو کسی قسم کی تیاری و منصوبہ بندی کی ضرورت پیش آئے اور بات وسائل و انتظامات کی بھی نہیں سرکاری مشینری قوانین طریقہ کار اور عملہ سبھی کچھ موجود ہے حکومت کے ابتدائی دنوں میں گربہ کشتن روز اول کی بھی اشد ضرورت تھی مگر بلی کی کسی نے گردن مروڑنے کی ہمت نہیں کی اور بار بار کے حکومتی اقدامات و اعلانات کے باوجود بھی اس وقت صورتحال یہ ہے کہ حکومتی اعلامیہ جات و اقدامات کے عندیہ کو ذرہ برابر اہمیت نہیں دی جارہی ہے رمضان المبارک کی آمد پر حسب دستور قیمتوں میں اضافہ جاری ہے ایسے میں حکام تیاریاں کرتے رہ جائیں گے یا پھر عملی طور پر دکانیں سیل کرکے دکانداروں کو ڈیرہ جیل بھیجنے کا ماضی کا کامیاب تجربہ دہرائیں گے ڈبل روٹی کے نام پر کم وزن کی روٹی پابندی کے باوجود بنائی اور فروخت ہورہی ہے سب کچھ متعلقہ حکام اور عملے کی ناک کے نیچے ہو رہا ہے پھر بھی توقع کی جانی چاہئے کہ مجوزہ اقدامات کو موثر بنانے کے لئے حکومتی مشینری حرکت میں آئے گی اور عوام مایوس نہیں ہوں گے۔

مزید پڑھیں:  صنفی تفریق آخر کیوں ؟