شیخ چلی کا منصوبہ

پشاور بس ریپڈ ٹرانسپورٹ کو سیاحت کے فروغ کیلئے بھی بروئے کار لانے کیلئے کلچر اینڈ ٹورازم اتھارٹی کو ٹاسک کی تفویض ایبٹ آباد اور ڈیرہ اسماعیل خان سمیت صوبے کے ڈویژنل ہیڈکوارٹرز اور بڑے شہروں میں بھی بی آر ٹی سروس کو توسیع دیکر نئے اضافوں کے ساتھ یہ جدید اربن ٹرانسپورٹ سسٹم شروع کرنے کا سنجیدگی سے جائزہ ناممکن نہیں تو مشکل ضرورنظر آتا ہے کیونکہ ابھی تک یہ منصوبہ نہ صرف خزانے پر بھاری بوجھ ثابت ہوا ہے بلکہ اس کی تکمیل اور ٹھیکیدار کو بھاری بقایا جات کی ادائیگی ہی نہیں ہو سکی ہے جس کے حصول کے لئے انہوں نے عالمی عدالت سے رجوع کرلیا ہے ایسے میں مزید منصوبے بنانے اور امیدیں باندھنا قابل عمل نظر نہیں آتا بہرحال کہا گیا ہے کہ اس مقصد کیلئے درکار بھاری بھرکم وسائل کا بندوبست سپانسرز کے ذریعے کیا جائے گا تاکہ خزانے اور عوام پر اس کا بوجھ پڑے اور نہ کوئی ٹیکس لگانا پڑے۔ایبٹ آباد ، ڈیرہ اسماعیل خان سمیت صوبے کے ڈویژنزل ہیڈ کوارٹرز اور بڑے شہروں میں جدید اربن ٹرانسپورٹ چلانے کا خواب تو سہانا ہے مگر ٹرانس پشاور کے بقایا جات کی ادائیگی میں مشکلات کی صورتحال پر نظر ڈالی جائے تو اس سے شیخ چلی کے خواب کی یاد آنے لگتی ہے بی آر ٹی کے سروس کی توسیع عوامی اور سیاحتی نقطہ نظر سے احسن ضرور ہے کہ اس سے عوام اور سیاحوں کو پرسہولت سفری سہولت میسر آئے گی اس طرح کے منصوبوں کا جائزہ لیا جانا چاہئے البتہ حقیقت پسندی سے بھی آنکھیں چرانے کی گنجائش نہیں ماضی کی گورنمنٹ ٹرانسپورٹ سروس بھی عوامی سہولت ہی کے پیش نظر شروع کیا گیا تھا مگر بڑے پیمانے پر بدعنوانی ،پرزوں کی فروخت اور خسارے کے باعث بالاخر اسے بند کرنا پڑا تھا بنا بریں جو بھی منصوبہ بنایا جائے اس کے قابل عمل ہونے کے ساتھ ساتھ کامیابی سے چلانے کے عملی اقدامات پر بھی بار بار غور کرنا بہتر ہوگا تاکہ توسیع کی قیمت پر موجودہ سہولت بھی کہیں دائو پر نہ لگ جائے۔

مزید پڑھیں:  امریکہ بھارت شکر رنجی اور پاکستان