پنجابی آٹا اور دھاتی ڈور

اسی کی دھائی سے کم از کم مجھے یا دہے کہ جب موٹروے نہیں بنی تھی تو صوبہ پنجاب اور پختونخوا (صوبہ سرحد) کو ملانے والا مشہور پل اٹک پل تھا ۔ اس پل کی اہمیت تو تھی ہی اسے شہرت بھی بہت حاصل تھی وہ اس لئے کہ اکثر ہمارے صوبہ کی گند م اور آٹا افغانستان سمگل ہوجاتاتھاتو پھر صوبہ بھر میں عام آدمی کو آٹا میسر نہیں ہوتاتھا لہٰذا مجبوراً پنجاب سے صرف آٹا لاناپڑتاتھامگر پنجاب سے آٹا لانا جیسے بھارت جیسے دشمن ملک سے کچھ لانے کے مترادف تھا۔ بالخصوص اٹک کے پل پر اتنی سخت چیکنگ ہوتی تھی کہ اللہ کی امان۔ اس طرح اٹک کا پل ہمارے پورے صوبہ میں مشہور تھا یا یوں کہا جائے کہ اس کی اچھی شہرت نہ تھی۔ اتنی سخت چیکنگ ہمارے صوبہ سے جانے والی چرس و دیگر اشیاء کی نہیں ہوتی تھیں کہ جتنی وہاں سے آنے والے آٹے کی ہوتی تھی۔ اس زمانہ میں آج کی طرح کی موٹروے پر چلنے والی خوبصورت اور آرام دہ بسیں تو نہیں ہوتی تھیں یوں کچھ لوگ تو ان بسوں اور اتنے لمبے سفر سے تنگ ہوتے تو اور کچھ کسر یہاں اٹک پل پر گھنٹوں ہونے والی چیکنگ نکال لیتی تھی۔ سمگلنگ چند لوگ کرتے تھے تاہم بے عزتی صوبہ کے ہر عام و خاص مرد و عورت کی ہوجاتی تھی۔
یہ سلسلہ نوے کی دھائی میں اور زور پکڑگیا اسی طرح نائن الیون کے بعد افغانستان میں امریکہ نے وہ تباہی پھیلائی کہ جو روس نے بھی نہیں پھیلائی تھی۔ افغانستان کے لوگ ایک بار پھر کھانے پینے کی چیزوں کو ترسنے لگے اور اس طرح ہمارے صوبہ کا آٹااور دیگر اجناس افغانستان سمگل ہونے لگیں جس سے ہمارے صوبہ خیبر پختونخوا میں کم از کم آٹے کی قلت اکثر رہنے لگی۔ اس قلت کو پوراکرنے کے لئے پنجاب سے آٹا منگوانا پڑتااور مجھے اچھے طرح یاد ہے کہ اس آٹے کو نہ تو دیکھنے کو جی چاہتا تھا اور نہ ہی کھانے میں حلق سے نیچے جاتا۔ گھر کے بڑے افراد تو جیسے تیسے کرکے زہر مار کرلیتے تھے مگر بچوں کو سوسو منتیں کرکے یہ روٹی کھلانی پڑتی اورامید دلائی جاتی کہ اگلی دفعہ ہم انہیں صاف اور اچھے آٹا کی روٹی کھلائیں گے اور یوں اس امید پر پوری ایک نسل جوان ہوگی اور جو جوان تھے وہ میری طرح اسی امید پر بوڑھے ہوگئے۔
آٹے کی قلت پچاس سال گزرنے کے باوجود ویسے کی ویسی ہے ۔ آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ پانچ دھائیوں کا چلتاہوا قصہ جو اب ہماری عادت بن چکاہے آج میرے کالم میں موضوع کیوں بنا تو اس کی وجہ بھی آپ سب کو اچھی طرح معلوم ہے کیونکہ میری طرح صوبہ خیبر پختونخوا کا ہر باسی پنجاب کی نو منتخب خاتون وزیر اعلیٰ محترمہ مریم نواز کے بے ہودہ بیان پر سخت غصے میں ہے جس میں انہوں نے دھاتی ڈور خیبر پختونخوا میں بن کر پنجاب جانے کی بات کی ہے پنجاب میں پتنگ کی دھاتی ڈور سے غریب نوجوانوں کے زخمی ہونے پر ہمیں بھی اتنا ہی افسوس ہے جتنا کہ کسی پنجاب کے باسی کو ہے لیکن محترمہ کا یہ بیان کہ پتنگ بازی میں استعمال ہونے والی یہ دھاتی ڈور صوبہ خیبر پختونخوا سے آتی ہے اور اس قتل کی ذمہ داران خدانخواستہ صوبہ خیبر پختونخوا کے لوگ ہیں۔ یقین جانیں ہم نے اپنے صوبہ کی پتنگ کی سب سے بڑی مارکیٹ یکہ توت پشاور سے معلومات کروائی تو پتہ چلا کہ ہم تو خود پتنگیں بھی پنجاب سے منگوارہے ہیں اور ڈور بنانے کے نہ تو ہمارے یہاں کسی قسم کے انتظامات ہیں اور نہ ہی یہ قاتل ڈور ہمارے صوبہ میں کہیں بھی استعمال ہورہی ہے۔ اور سچ کہا جائے تو پتنگ بازی کا جتنا شور اور ولولہ پنجاب اور لاہور کے لوگوں کو ہے وہ پورے پاکستان میں کہیں نہیں۔ پنجاب میں یہ دھاتی ڈور کہاں سے آتی ہے اور پنجاب کی پولیس و انتطامیہ انہیں روک کیوں نہیں سکتی یہ سراسر پنجاب کی پولیس اور انتظامیہ کی نااہلی ہے اور پنجاب کی خاتون وزیر اعلیٰ اور اتنی بڑی سیاسی پارٹی کی رہنماء بغیر سوچے سمجھے اس طرح کا الزام ہمارے صوبہ پر تھوپ رہی ہے تو یہ ان کے ناپختہ اور نااہل ہونے کا واضح ثبوت ہے۔ یہ محترمہ یہ بھی بھول جاتی ہیں کہ بنیادی طور پر وہ بھی صوبہ خیبر پختونخوا کی بہو ہیں اور اپنے سسرال پر الزام عائد کرنے سے پہلے انہیں سو بار سوچنا چاہئے۔ یہی نہیں ان کے والد محترم اور پاکستان کے تین دفعہ رہنے والے وزیر اعظم میاں نواز شریف بھی اسی طرح کی ہرزہ سرائی کرچکے ہیں کہ خیبر پختونخوا کے لوگ بے وقف ہیں جو کہ ہر بار پاکستان تحریک انصاف کو ووٹ دیتے ہیں۔ اس بیان کے بعد ان کے ساتھ عوام نے کیا جواب دیا وہ سب نے دیکھ لیا کہ وہ مانسہرہ کی سیٹ سے بھی بری طرح ہارگئے ہیںحالانکہ وہ قبل ازیں اس نشست پر جیتے رہے ہیں اور یہ حلقہ مسلم لیگ نون کا حلقہ متصور ہوتا ہے بہرحال ہار جیت اپنی جگہ سیاستدان سوچ سمجھ کر بولنے لگیں اور پہلے تو لو پھر بولوکا قول زریں یاد رکھیں تو خود ان کے لئے بہتر ہوگا۔

مزید پڑھیں:  صنفی تفریق آخر کیوں ؟