الٹے بانس بریلی کو ؟

صوبائی دار الحکومت پشاور میں ہر سال عیدین اور محرم الحرام کے ایام میں صفائی ستھرائی کو یقینی بنانے اور شہر کو صاف ستھرا رکھنے کیلئے ڈبلیو ایس ایس پی کے عملے کو ہائی الرٹ پر رکھنے کے خصوصی انتظامات کے تحت ملازمین کو عید الاؤنس کے نام پر اضافی تنخواہ ادا کی جاتی ہے تاکہ وہ تندہی سے اپنے فرائض انجام دینے پر بخوشی آمادہ ہو سکیں، لیکن اس بار ڈبلیو ایس ایس پی نے مبینہ طور پر فنڈز نہ ہونے کی وجہ سے 70 فیصد عملہ صفائی کو ”رخصت” پر بھیج کر صرف 30 فیصد عملہ کو پورے شہر کی صفائی ستھرائی کا کام سونپنے کی بجائے مخصوص مقامات سے ہی کوڑا کرکٹ اٹھانے کی ذمہ داری سونپ دی تھی، جس کی وجہ سے شہر کا متعلقہ 70 فیصد حصہ گندگی سے اٹ گیا تھا، عید پر ویسے بھی لوگوں کی سرگرمیاں بڑھ جاتی ہیں ،عید ملنے اور دعوتوں میں اضافے کی وجہ سے کوڑا کرکٹ عام دنوں کی نسبت زیادہ ہو جاتا ہے، گھروں، گلیوں اور بازاروں میں گندگی کے ڈھیر لگ جاتے ہیں ،جبکہ عام دنوں کی نسبت اگر عملہ صفائی کی تعداد میں 70 فیصد کمی کی جائے تو اس سے صورتحال جس خرابی کی نشاندہی کرتی ہے اس پر کسی تبصرے کی ضرورت نہیں نہ ہی گنجائش، بلکہ شہر بھر کے عوام اپنی آنکھوں سے اس ”ماحولیاتی بگاڑ” کو دیکھنے پر مجبور تھے، صورتحال یہ ہے کہ ڈبلیو ایس ایس پی ایک عرصے سے پانی کے بلوں میں صفائی ستھرائی کے نام پر الگ سے عوام سے وصولیاں کر رہا ہے، جبکہ اصولی طور پر شہری جو پہلے ہی ہر ہر قدم پر مختلف ٹیکسوں کے نام پر حکومت کو ادائیگیاں کر رہے ہیں ،اور میونسپل اداروں کو ان ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہونے کیلئے حکومت سے فنڈز بھی فراہم کئے جاتے ہیں ،اس لئے عید کے دنوں میں متعلقہ ادارے کا 70 فیصد عملے کو صرف عید بونس ادا کرنے سے احتراز کی خاطر چھٹی پر بھیجنے کا کوئی جواز نہیں ہے، یہ ایک ناقابل قبول پالیسی اور اقدام ہے جس کے خلاف عوامی سطح پر احتجاج اگر کیا جائے تو اسے جائز ہی قرار دیا جائے گا، جبکہ میئر پشاور اور میونسپل منتخب اراکین کو اس پر توجہ دینی چاہیے۔

مزید پڑھیں:  چوری اور ہیرا پھیری