جامعات کے ایکٹ میں ترامیم

خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت نے جامعات کیلئے جو ایکٹ نافذ ہے اس میں ترامیم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ ایک خوش آئند اعلان ہے۔ اس لئے کہ اس وقت جو ایکٹ نافذ العمل ہے اس کی وجہ سے جامعات کو فیصلہ سازی میں کافی مشکلات کا سامنا ہے۔ جب اس صوبہ میں چند یونیورسٹیاں تھیں تو ان کیلئے 1974 کا یونیورسٹی ایکٹ تھا۔ جو کسی حد تک حقیقی معنوں میں یونیورسٹیوں کو خودمختاری دیتا تھا۔ لیکن صوبہ میں جب اے این پی کی حکومت آئی تو ان کو یونیورسٹیوں کی یہ خود مختاری پسند نہیں آئی اور انہوں نے اس ایکٹ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ شروع کردی۔ اسے 2010 سے 2012 تک مسلسل اپنے خواہشات کے مطابق بدلنے کی کوشش کی گئی ،یوں 1974 کا ایکٹ ختم ہوگیا اوریونیورسٹیاں 2012 کے ایکٹ کے تحت کام کرنے لگیں۔ وقت کیساتھ ساتھ قوانین اور پالیسیوں میں تبدیلی ایک مثبت عمل ہے لیکن یونیورسٹی ایکٹ میں یہ عمل فطری اور ضرورتوں کے مطابق نہیں تھا بلکہ یہ یونیورسٹیوں کی خود مختاری کو ختم کرنے اور چند من پسند افراد کو نوازنے کیلئے عمل میں لایا گیا تھا۔ اس لئے ایکٹ میں لوگوں کے مطلب کی چیزیں شامل ہوگئیں لیکن یونیورسٹیوں کی بہتری کیلئے کسی نے اس میں کچھ شامل نہیں کیا۔یہ ساری تبدیلیاں حکومتی اختیار اور وائس چانسلر وں کے اختیار کے گرد گھومتی رہیں۔ پھر 2016 میں اس ایکٹ میں مزید ترامیم کی گئیں۔ جس سے سنڈیکٰیٹ اور سینٹ کی ممبران کو من پسند بنایا گیا۔ گزشتہ چھے سات برسوں سے یونیورسٹیوں میں رجسٹرار ، ڈائریکٹر فنانس اور کنٹرولر امتحانات کو مستقل بنیادو ں پر نہیں لگایا جاسکا۔ جس سے عملاً یونیورسٹیوں کا نظام تباہ ہوگیا۔ یونیورسٹی ایڈمنسٹریشن کی ایک بڑی تعداد سنڈیکٹ کی ممبر ہوگئے جس کی وجہ سے یونیورسٹی کے فائدے کیلئے مناسب قانون سازی کا عمل رْک گیا۔ہم دنیا میں سب سے الگ ہوکر سوچنے اور جینے کی کوشش کررہے ہیں جس کی وجہ سے ہم مسلسل انحطاط کی طرف سفر کررہے ہیں۔ دنیا بھر کی یونیورسٹیاں وقت کے ساتھ ساتھ مکمل خود مختار ہوتی جارہی ہیں۔ ان یونیورسٹیوں میں سرکاری اور سیاسی مداخلت کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اس لئے کہ یونیورسٹیاں مکمل خود مختاری کے بغیر نہیں چل سکتیں۔
ہمارے ہاں یہ رواج زور پکڑتا گیا کہ یونیورسٹیوں کو بھی بیورورکریسی کی ایک ذیلی شاخ بنادیا جائے جو ان افسران کو جوابدہ ہوں اور ان کی مرضی کے مطابق چلیں۔ لیکن اگر وہ سب مراعات جو بیوروکریسی کو حاصل ہیں ان میں سے کوئی بھی مراعات یونیورسٹیوں کو نہ دی جائے۔ بلکہ ان سے وہ سب کچھ چھین لیا جائے جو کسی زمانے میں ان کو دی گئیں تھیں۔ بیوروکریسی کی تنخواہ اور یونیورسٹیوں میں پڑھانے والوں کی تنخواہوں میں پوری دنیا میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں یونیورسٹی اساتذہ وہاں کی بیوروکریسی سے پانچ گنا زیادہ تنخواہ لیتے ہیں۔ جبکہ پاکستان میں یہ الٹا ہے یہاں یونیورسٹی اساتذہ جو گریڈ میں ان سرکاری افسران سے کہیں آگے ہوتے ہیں وہ ان کے مقابلے میں نصف سے بھی کم تنخواہ لیتے ہیں اور ان کو کوئی مراعات حاصل نہیں ہوتیں۔ ایک وقت تھا جب لوگ سی ایس ایس کرکے یونیورسٹی جاب کیلئے وہ چھوڑ دیتے تھے اور اب صورتحال یہ ہوگئی ہے کہ پولیس میں اے ایس آئی بھرتی ہونے کیلئے لوگ یونیورسٹی کی جاب چھوڑ رہے ہیں۔ اس لئے حکومت کو اس پر سوچنا چاہئیے کہ پوری دنیا جو سلوک اپنے اکیڈیمیہ کے ساتھ کرتی ہے وہ پاکستان کی حکومتیں بھی کریں۔ اور ان یونیورسٹیوں کو بیورورکریسی اور سیاسی مداخلت سے پاک کرے۔ اس مقصد کیلئے یونیورسٹیوں میں وائس چانسلروں کا انتخاب سیاسی اور من پسند افراد سے کرنے کی جگہ صلاحیتوں اور قابلیت کی بنیاد پر کیا جائے۔ اور اس عمل کواس قدر شفاف بنایا جائے کہ وہ حقیقی لوگ اس منصب پر آئیں جو ان اداروں کی عظمت رفتہ کو بحال کرسکیں۔
شاید حکومتوں کا یونیورسٹیوں کی تباہی میں اتنا اہم رول نہ ہوتا اگر وہ ان خود ساختہ اور ذاتی فائدے کیلئے سرگرم مشیروںکو اس عمل سے دور رکھتیں مگر ایسا نہیں ہوا۔ وہ لوگ ہر حکومت میں پیش ہیش ہوتے ہیں اور حکومتوں میں موجود لوگوں کی ذہن سازی کرتے ہیں اور اپنے فائدے اٹھاتے ہیں۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد اعلیٰ تعلیم کے شعبہ کو صوبائی حکومتوں کے تابع ہونا چاہئیے تھا مگر ایسا نہ ہوسکا۔ یونیورسٹیوں کی سیاسی بنیادوں پر بننا اور ان میں بے تحاشا سیاسی بھرتی اور مداخلت نے اب یہ حالت کردی ہے کہ کسی بھی یونیورسٹی کے پاس دینے کو تنخواہ نہیں ہے۔ یونیورسٹیوں کے یہ بحران مزید بڑھ جائیں گے اگر اس مقصد کیلئے بروقت سڑیٹی جیک پلاننگ نہ کی گئی۔ یہ اس لئے ہو رہا ہے کہ چند نالائق اور مطلب پرست حکومت کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا کر اپنا اْلو سیدھا کررہے ہیں۔ یونیورسٹیوں میں موجود ماہرین جو یونیورسٹیوں کا تجربہ رکھتے ہیں وہ حکومت کو اس ضمن میں بھرپور معاونت فراہم کرسکتے ہیں۔ مگر یہ لوگ خود سے حکومت کے پا س نہیں جائیںگے حکومت کو ان سے رابطہ کرنا چاہیے۔یونیورسٹی ایکٹ میں تبدیلیاں ضرور کی جائیں مگر یہ تبدیلیاں یونیورسٹیوں کی خود مختاری ، اس کے مسائل کے حل اور پائیدار ترقی کیلئے ہوں۔ ایسا نہ ہوکہ ایسی تبدیلیاں عمل میں لائی جائیں جس سے یونیورسٹیاں سرکاری سکولوں کی سطح پر آجائیں اور ایک سیکشن افسر ان کو کنٹرول کررہا ہو۔ ایسا کرنے سے بیورورکریسی کی طاقت بڑھ جائے گی لیکن یہ صوبہ دنیا سے اعلیٰ تعلیم کی ترقی میں بہت پیچھے چلا جائے گا۔ اور یہاں سے برین ڈرین جو ہورہا ہے اس میں بہت زیادہ اضافہ ہوجائے گا۔ جس سے صوبہ کی ترقی کا خواب ادھورا رہ جائے گا۔

مزید پڑھیں:  نان کسٹم پیڈ گاڑیوں پر پابندی