فیض آباد دھرنا ، نیا پنڈورہ باکس

فیض آباد دھرنے کی تحقیقاتی کمیشن نے اپنی رپورٹ میں جہاں انٹیلی جنس ایجنسیوں کے کام کوریگولیٹ کرنے کے لئے قانون سازی کی ضرورت پرزور دیا ہے اور کہا ہے کہ دھرنے کے نتائج اس وقت کے رہنماء اور خاص طور پر حکومت پنجاب کی معاملے کوسنبھالنے کی اہلیت نہ ہونے کی وجہ سے رونما ہونے کی نشاندہی کی ہے ، وہاں مبینہ طور پر اسلام آباد پولیس ، وزارت داخلہ ، پنجاب حکومت ، آئی ایس آئی اور انٹیلی جنس بیورو کے کردار پربھی روشنی ڈالی ہے جبکہ اس وقت کے میجر جنرل ڈی جی(سی) آئی ایس آئی معاہدے پر دستخط کرنے کی بناء پر ذمہ داری سے مستثنیٰ قرار دیا ہے ، اس رپورٹ کے بعض مندرجات سامنے آنے کے بعد اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب(موجودہ وزیر اعظم) شہباز شریف پر مخالف سیاسی قائدین کی جانب سے الزامات کی بوچھاڑ کی جارہی ہے جس میں کتنی صداقت ہے اور اس معاملے کی ذمہ داری کس قدر موجودہ وزیر اعظم پرعایدکی جاسکتی ہے ، اس بارے میں محولہ رپورٹ کے حوالے سے جب تک سپریم کورٹ کوئی حتمی فیصلہ نہیں کرتی تب تک کسی بھی دعوے کو تسلیم نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اس ضمن میں وزیر دفاع خواجہ محمد آصف کے اس دعوے کو بھی دیکھنا پڑے گا جو انہوں نے دھرنا کمیشن رپورٹ کوبے وقعت قرار دینے کے حوالے سے کیا ہے کہ بقول ان کے ”کمیشن ایک مذاق تھا ، فیض حمید اور قمر باجوہ تو کمیشن کے سامنے پیش ہی نہیں ہوئے”۔ وزیردفاع کے اس بیان کو اتنی آسانی سے نظر انداز اس لئے نہیں کیا جاسکتا کہ کمیشن جنرل فیض حمید اورجنرل باجوہ کوبیانات ریکارڈ کرانے کے لئے کمیشن کے سامنے پیش کروانے میں بری طرح ناکام ہو گیا تھا اورجب تک ان دونوں کے بیانات ریکارڈ نہ کرائے جائیں ، کسی بھی حتمی نتیجے تک پہنچنا ممکن تھا نہ اس نتیجے کو درست تسلیم کیا جاسکتا ہے ، بہرحال جب تک رپورٹ کے بارے میں سپریم کورٹ کوئی فیصلہ نہ کرے اس حوالے سے کسی بھی سیاسی حلقے کی جانب سے دعوے کو قبول نہیں کیا جاسکتا۔

مزید پڑھیں:  کسانوں کو ریلیف