ملتان ہے کل جہان

چند ماہ کے وقفے سے دو ماں جائیوں (بھائیوں)کے سانحہ ارتحال کے بعد پہلی عیدالفطر تھی اس لئے امڑی حضور کے شہر ملتان میں حاضری واجب ہوئی۔ لگ بھگ 6دن اپنے جنم شہر میں بسر کئے والدین اور بھائی کی قبروں پر فاتحہ خوانی کی اپنی امڑی حضور سے ڈھیروں باتیں کیں۔ کچھ باتیں بابا حضور کی تربت پربھی کیں ان میں کچھ شکوے تھے اور چند ضروری باتیں۔ بابا حضور کی تربت پر ضبط کے باوجود مجھے یہ عرض کرنا پڑا کہ افغانستان میں لڑی گئی جس سوویت امریکہ جنگ میں آپ نے شرکت کی اور اپنی جان واری اس جنگ نے خود آپ کے اپنے ملک پاکستان میں فرقہ وارانہ دہشت گردی اور شدت پسندی کے ننگے ناچوں نے ایک لا کھ سے زائد افراد کو نگل لیا۔ بابا سے یہ بھی عرض کیا کہ کیا خاندانی ذمہ داریوں پر کسی جہاد کو ترجیح دینے سے حق ادا ہوجاتا ہے؟ کچھ شکوے تھے جو ان سطور میں لکھنے سے قاصر ہوں یہ باپ بیٹے کا خالصتاً نجی معاملہ ہے۔ عیدالفطر پر ملتان میں چھ روزہ قیام کے دوران امڑی جائیوں(بہنوں)کی جی بھر کے زیارت کی ان سے دعائیں لیں۔ کچھ دوستوں سے بھی ملاقاتیں رہیں۔ بہت سارے دوستوں کو عیدالفطر پر ان کی مصروفیات کی وجہ سے زحمت نہیں دی بعض عید کی وجہ سے اپنے آبائی شہروں اور قصبوں میں تھے۔ غم روزگار میں اپنوں اور جنم بھومی سے بچھڑے لوگوں کیلئے تہوار، غمی اور خوشی واپسی کے سفر کیلئے دروازے کھولتے ہیں۔ خود میں 2002 کے بعد پورے بائیس سال کے وقفے سے عید پر ملتان گیا۔ سال میں کئی بار ملتان جاتا ہوں مجھے ملتان جانے کیلئے بس بہانہ چاہیے ہوتا ہے۔ شاید ایسا ان سب لوگوں کے ساتھ ہوتا ہوگا جو رزق کی تلاش میں اپنوں اور جنم بھومیوں سے بچھڑتے ہیں۔ اپنی امڑی حضور کی تربت پر فاتحہ خوانی کے بعد ان کی پسندیدہ ترین قرآنی سور سور الکوثر کی تلاوت کی تب مجھے محسوس ہوا میری اماں آمین کہنے کے ساتھ دعائوں سے نواز رہی ہیں۔ عید کے تیسرے دن جمعتہ المبارک کی شام میں نے اپنے جنم شہر کی جی بھر کے سیر کی پھر بھی تشنگی رہی۔ جب صحت ہوتی تھی تو اندرون شہر کے بازاروں میں گھومتا۔ کبھی کبھی چوک خونی برج سے سیڑھیاں چڑھ کر اندرون شہر میں داخل ہوتا اور گھنٹہ گھر کے سامنے میڈیسن مارکیٹ کے درمیان میں چھوٹی سی سیڑھیاں اتر کر کچہری کی طرف روانہ ہوجاتا۔ کئی بار میںنے اپنے مرحوم دوست نذر بلوچ سے خونی برج سے کچہری تک پیدل سفر کرنے اور عزیز نیازی ایڈووکیٹ مرحوم کے چیمبر میں پہلے پہنچنے کی شرط لگائی اور شرط جیتی بھی۔ اس بار ملتان کی سیر کیلئے ایک رکشہ پر سواری کی رکشہ والا نماز عشاء کی ادائیگی کیلئے حساب کرتا رہا کہ کتنے بجے کہاں نماز عشاء ہوتی ہے۔ اس حساب کے دوران میں نے اس سے کہا آپ نے پھر مجھے رکشہ میں سوار کیوں کرایا؟ کہنے لگا سئیں نماز فرض ہے وہ تو مجھے ادا کرنی ہی ہے مزدور آدمی ہوں سات آٹھ سو ر وپے کی سواری مل گئی دل میں لالچ آگیا۔ عرض کیا اسے لالچ نہیں گھر داری کی ضرورت کہتے ہیں۔رکشہ سات بجے کے لگ بھگ عزیز ہوٹل کے قریب سے روانہ ہوا میں نو بج کر دس منٹ پر چوک خونی برج میں اس سے طے شدہ حق خدمت ادا کرکے رکشہ سے اتر گیا۔اس دوران ہم نے (دونوں نے)بابا آئس کریم نواں شہر کی بدمزہ بلکہ انتہائی بدمزہ آئس کریم کھائی۔ بابا آئس کریم والوں کا اچھا معیار کے لیکن عیدالفطر کی کمائی پر انہوں نے معیار کو تین طلاقیں دے رکھی تھیں ۔ آگے چل کر سول ہسپتال کے پاس گول گپے کھائے یہاں سے رکشہ لانگے خان باغ کے پہلو والی سڑک پر مڑوالیا پل موج دریا سے ہوتے ہوئے کچہری چوک اور پھر گھنٹہ گھر والی سڑک پر گھوم گئے اس سڑک سے گزرتے ہوئے سب سے پہلے مجھے شہید جودت کامران یاد آئے۔ یہ خوبصورت جوان طالب علم ، ایوب خان کے خلاف تحریک کے دنوں میں پولیس کی گولی لگنے سے شہید ہوا تھا۔ غالباً وہ جس گھر کے باہر گولی لگنے سے شہید ہوا وہ گھر بچہ خاندان کے کسی فرد کا تھا۔ اس خاندان نے شہید طالب علم کی یادگار تعمیر کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی تھی اب اس جگہ بڑے بڑے پلازے اور مارکیٹیں ہیں۔ گھنٹہ گھر والی سڑک پر مدرسہ قاسم العلوم سے کچھ پہلے ایک گلی میں ہمارے دلبر یار مرید حسین بخاری کا گھر تھا۔ مرید بخاری الہڑ جوانی میں دنیاسرائے سے رخصت ہوا تو اس کے والدین جوان بیٹے کا صدمہ اٹھائے وہاڑی لوٹ گئے۔1970 کی دہائی میں ہوٹل فاران ملتان کے سفید پوش سیاسی کارکنوں، دانشوروں، ادیبوں اور طلبا سیاست میں سرگرم نوجوانوں کا ٹھکانہ ہوتا تھا اس کے لان میں لگی میز کرسیوں پر سرخے، سبزے، ملحد اور قوم پرست سبھی توانا آواز میں بحثیں کرتے۔ جولائی 1977 میں جنرل ضیاء الحق کا مارشل لا نازل ہوا تو چند ماہ بعد اس ہوٹل کے مالک اور منیجر کو ڈی ایم ایل(ڈپٹی مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر)نے طلب کرکے کہا ہوٹل چلانا ہے توروزانہ شام کو ہوٹل میں ہونے والی جلسیاں بند کرائو۔ فوجی حکام سمجھتے تھے کہ یہ مختلف الخیال سیاسی ورکرز اور ادیب دانشور و طالب علم رہنما ء ہوٹل میں گپ شپ کے نام پر سیاسی باتیں کرتے اور فوجی حکام کے خلاف پروپیگنڈہ کرتے ہیں۔ فاران ہوٹل میں پیش آئے چند دلچسپ اور عبرتناک واقعات بھی ہیں انہیں اپنے سفر حیات پر لکھی آپ بیتی میں پڑھنے والوں کیلئے لکھوں گا۔ فاران ہوٹل سے کچھ آگے بائیں سمت مدرسہ قاسم العلوم ہے۔ مولانا فضل الرحمن کے والد بزرگوار مفتی محمود صاحب اور ہمارے بابا جان کے گہرے دوست مفتی عبداللہ صاحب اس سے منسلک رہے۔ مفتی محمود صاحب مرحوم کی وجہ سے یہ مدرسہ قاسم العلوم کئی دہائیوں تک سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بھی رہا۔ اس مدرسہ سے کچھ فاصلے پر دائیں سمت مڑنے والی سڑک پر مدرسہ انوارالعلوم ہے۔
1947 میں ہندوستان سے ہجرت کرکے ملتان آنے والے علامہ سید احمد سعید کاظمی کی سربراہی میں بریلوی مکتب فکر کے اس مدرسے نے خاصی شہرت حاصل کی۔ رکشہ آگے بڑھتا رہا گھنٹہ گھر چوک سے دائیں سمت کی ایک چھوٹی سی گلی کی ذیلی گلی میں مرحوم و مغفور سعدی خان کا گھر تھا۔ سعدی خان 1970 کی دہائی کے دوسرے نصف کے ملتان میں ترقی پسند طالب علم رہنماء کے طور پر ابھرے۔ گھنٹہ گھر چوک کا نقشہ اب تبدیل ہوچکا کبھی یہاں مدینہ ہوٹل، کیفے شاہد، نیشنل بینک ہوتے تھے عقبی سڑک پر خیبر ہوٹل کے ساتھ ایک دو چھوٹے ہوٹل تھے۔ کیفے شاہد کی چائے شاندار ہوتی معروف معلم مہر گل محمد مرحوم اپنے دوستوں کے ہمراہ کیفے شاہد کے مستقل گاہکوں میں سے تھے۔ رکشہ دولت گیٹ چوک سے خونی برج کی طرف مڑا تو الٹے ہاتھ کی اس گلی پر نگاہ پڑی جس میں اپنے وقت کے معروف شاعر سید منیر فاطمی کا گھر تھا۔ منیر فاطمی ملتان میں رات گئے تک کھلے رہنے والے ہوٹلوں میں دوستوں کے ساتھ مجلسیں برپا کرتے رہتے تھے۔ اس گلی سے کچھ آگے معروف امام بارگاہ ہے کچھ فاصلے پر مخدوم شاہ محمود قریشی کا آبائی گھر ان کے قریب ہی ہماری والدہ حضور کی ایک منہ بولی صاحبزادی کا آبائی گھر تھا۔ ہمارے دوست خواجہ ضیاء صدیقی ہماری اس منہ بولی بہن کے داماد ہیں۔ دولت گیٹ سے خونی برج کی طرف سرکلر روڈ پر سفر کرتے ہوئے ڈھیروں یادوں نے دستک دی ان کا احوال پھر کبھی سہی۔

مزید پڑھیں:  محنت کشوں کا استحصال