afshan malik

سیاسی بحران کی جڑیں!

تحریک انصاف کی حکومت کو دوسال ہونے کو ہیں مگر بحران ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے، معاشی بحران کیساتھ ساتھ سیاسی بحران بھی سر اُٹھا رہا ہے کیونکہ جے یو آئی سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے آرمی ایکٹ کی منظوری کے بعد پی پی، نواز لیگ اور اے ین پی سے ناراض ہوکر دوسری حزب مخالف جماعتوں کو اکٹھا کرکے سارے معاملات کو مارچ میں اُٹھانے کا اعلان کر دیا ہے، اس لئے سیاسی امور کے ماہرین کہہ رہے ہیں کہ حکومت کیلئے مارچ کا مہینہ مہنگا ثابت ہوسکتا ہے جبکہ معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ مستقبل قریب میں معاشی معاملات سدھرتے نظر نہیں آرہے ہیں، مسئلہ صرف معاشی یا سیاسی معاملات کا نہیں ہے بلکہ کسی بھی شعبے میں حکومتی ٹیم کی کوئی مہارت ثابت نہیں ہو رہی ہے اور وزیراعظم عمران خان کی ٹیم میں دور دور تک کوئی ایک بھی فرد ایسا دکھائی نہیں دیتا جو عوام میں پائی جانے والی مایوسیوں کا سدباب کرنے کی صلاحت رکھتا ہو۔ یہ محض اتفاق نہیں ہو سکتا کہ شبر زیدی نے اس وقت رخصت چاہی جب آئی ایم ایف کا ایک وفد صرف دو دن بعد پاکستان پہنچا۔ عالمی اداروں کے سازشی ٹولے دنیا کی ترقی پذیر اور تیسری دنیا کی معیشتوں کو انتہائی بے رحمی سے نشانہ بناتے ہیں۔ ان کا طریقہ واردات اب اتنا مخفی نہیں رہا۔ جان پرکنز نے اپنی دومعرکة الآرا کتابوں ”کنفیشن آف این اکنامک ہٹ مین” اور ”دی سیکرٹ ہسٹری آف ڈی امریکن امپائر” میں راز فاش کر دئیے ہیں۔ یہ کتابیں ہمیں ملکی واقعات کو سمجھنے کا ایک درست تناظر فراہم کرتی ہیں۔ عالمی اداروں کے نشانے پر رہنے والے کسی بھی ملک میں اکنامک ہٹ مین یا اقتصادی غارت گر کیسے بروئے کار آتے ہیں؟ یہ پیشہ ور افراد ملکوں کو ان کی اپنی معیشت کی طاقت سے کیسے محروم کر کے حاشیہ بردار رکھتے ہیں؟ کیسے یہ غارت گر ملکوں کے منافع کا ستیاناس کرتے ہیں اور اسے عالمی اداروں کے کھاتوں میں منتقل کرتے ہیں؟ اپنے اہداف کو پورا کرنے کیلئے یہ ہر چیز کرتے ہیں۔ اس کیلئے جعلی مالیاتی رپورٹیں تیار کی جاتی ہیں۔ انتخابی دھاندلیوں کے ذریعے مرضی کی حکومتیں بنائی جاتی ہیں، اس میں استحصال کا ہر طریقہ روا ہوتا ہے۔ جنسی ترغیبات، رشوت یہاں تک کہ قتل وغارت گری کو بھی اپنے اہداف کی تکمیل کیلئے جائز سمجھا جاتا ہے۔ جان پرکنز نے اپنی پہلی کتاب میں انکشاف کیا ہے کہ ایکواڈور کے صدر رولڈوس اور پاناما کے صدر عمر توری جوس کو خوفناک فضائی حادثے میں اس لئے قتل کیا گیا تھا کیونکہ وہ کارپوریٹ ٹولے اور بینکنگ سربراہوں کیساتھ اپنی حکومتوں کے گٹھ جوڑ کے مخالف تھے۔ درحقیقت اپنی ہی ”حکمت عملیوں” سے پیدا ہونے والی ”خرابیوں” کو دور کرنے کیلئے یہ اپنے ہی ”بندوں” کو اپنے زیرہدف ملک میں تعینات کراتے ہیں۔ پھر ان ”خرابیوں” کو ”ٹھیک” کرنے کے بہانے یہ نئی نئی ”خرابیوں” کی افزائش کرتے ہیں اور معیشت کو ایک ایسے منحوس گرداب میں دھکیل دیتے ہیں جہاں ہر معاشی تدبیر ایک دائرہ کاٹ کر اسے واپس ” قرضے” کے حل پر دھکیلتی اور رقوم کو ایک ہاتھ سے دے کر واپس اپنے ہاتھ میں لے لیتی ہے۔ تیسری دنیا کے اکثر ممالک کیساتھ عالمی مالیاتی اداروں نے اسی طرح ”ہاتھ” کیا ہے۔
ماہر معیشت ڈاکٹر اشفاق کہتے ہیں کہ ”پاکستان نے قرض کے حصول کیلئے آئی ایم ایف کیساتھ جو معاہد کیا ہے وہ مصر ماڈل کا چربہ ہے کیونکہ آئی ایم ایف میں مصر کو ایک پوسٹر چائلڈ کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے جبکہ آئی ایم ایف کے پروگرام میں جانے سے پہلے مصر میں تقریباً 30فیصد لوگ خط غربت سے نیچے تھے اور آج یہ شرح55فیصد ہے۔ مصر میں اس طرح کے پروگرام کے ثمرات یہ ہیں کہ غربت میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔ مصر کی کرنسی کی قدر کم ہونے سے وہاں مہنگائی بہت تیزی سے بڑھی۔یاد رہے گورنر اسٹیٹ بینک اور چیئرمین ایف بی آر کی تعیناتیاں مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ کو مقرر کرنے کے فوراً بعد عمل میں آئی تھیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ ان تینوں مناصب پر تقرریاں کرتے ہوئے حکومت نے کسی قسم کی جانچ کا خیال نہیں کیا۔ ان تینوں مناصب پر تعینات طارق باجوہ، جہانزیب خان اور اسد عمر کو تب اُٹھا کر پھینکا گیا جب وہ آئی ایم ایف سے مذاکرات کے ایک حتمی دور میں داخل ہو رہے تھے۔ اچانک وزیرخزانہ کے منصب سے پہلے اسد عمر کو فارغ کیا گیا اور پھر باقی دومناصب پر بھی تبدیلیاں لائی گئیں۔ یوں لگتا ہے کہ سوچ کا کسی عمل سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے۔ بس طے شدہ اقدامات اور عالمی اداروں کے احکامات پر ہمارا گزارا ہے۔ ریاست جتنا وقت پاکستانی شہریوں کو اپنے ڈھب پر لانے میں خرچ کرتی ہے، اگر اس کا نصف بھی معاشی خودمختاری حاصل کرنے پر صرف کرے تو آئی ایم ایف کا وفد یوں دندناتا پھرے نہ پاکستان کو بیرونی ایجنڈے پر مامور لوگوں کو برداشت کرنا پڑے۔ قومی ریاستوں میں سیاسی بحرانوں کی جڑیں اکثر معاشی ناہمواریوں کی زمین میں پیوست نکلتی ہیں۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ معاشی خودکفالتی کے بغیر سیاسی آزادی کا خواب پورا ہو گیا ہو۔ پاکستان کو اپنے سیاسی ارادے کو آزاد کرنا ہے تو ایک معاشی انقلاب برپا کرنا ہوگا۔ اس کیلئے موجودہ بندوبست تو ہرگز موزوں نہیں۔ اس پس منظر کے بعد سوال یہ ہے کہ بحران کے ان حالات میں وزیراعظم عمران خان کا لائحہ عمل کیا ہوگا کیا وہ نئی ٹیم کا انتخاب کریں گے یا بقول میر تقی میر
جی کا جانا ٹھہر گیا ہے صبح گیا یا شام گیا

مزید پڑھیں:  کھوکھلے مطالبات