ایک آزاد پرندہ ہوں جہاں چاہوں اڑوں

انتہائی معذرت کے ساتھ عرض کرنے دیں کہ ہم من حیث المجموع کسی حد تک منافقت کا شکار ہیں ہم نے من حیث القوم کے الفاظ نہیں لکھے کیونکہ جس مسئلے پر ہم روشنی ڈالنا چاہتے ہیں اس کا تعلق ایک خاص طبقے سے ہے ، پوری قوم سے نہیں، اور جس طبقے کے بارے میں آپ کی توجہ دلانا چاہتے ہیں وہ ادباء اور شعراء کا ہے یہاں ایک بار پھر ہم نے تمام ا ہل قلم کے بارے میں منافقت کا تذکرہ نہیں کیا بلکہ اہل قلم میں بھی تفریق پیدا کرتے ہوئے ایک مخصوص حصے کے حوالے سے خامہ فرسائی تک خود کو محدود کرنے کی کوشش کی ہے اگرچہ اس حوالے سے ہم ایک عرصے سے اسی سوچ کو پالتے رہے ہیں مگر”خوف فساد اہل ادب” کی وجہ سے جرأت اظہار سے کنی کتراتے رہے ہیں مگر ہوا یہ کہ آج جب جمعہ کی نمازسے فارغ ہونے کے بعد گھر واپس آئے اور کھانے سے فارغ ہونے کے بعد تھوڑی دیر کے لئے قیلولہ کرنے کی نیت سے لیٹ گئے ، تو ابھی بہ مشکل ہی ہماری آنکھ لگی تھی کہ ایک دل کے انتہائی قریب دوست مکرم جن کا نام ظاہر کرکے ان کے لئے کوئی مشکل پیدا نہیں کرنا چاہتے کہ اس بارے میں ہم نے ان سے نام ظاہر کرنے کی اجازت بھی نہیں لی بس اتنا بتا سکتے ہیں کہ وہ صاحب طرز شاعر ہیں اور ریٹائرمنٹ سے پہلے ایک ایسے سرکاری ادارے سے وابستہ رہے ہیں جہاں لکھنا پڑھنا ان کا اوڑھنا بچھونا رہا ہے ، ان کے فون نے ہماری غنودگی کی کیفیت کو ختم کیا ، اگرچہ انہوں نے بقول ان کے اس ”بے وقت” زحمت پر بار بار معذرت بھی کی حالانکہ وہ ہمارے ان چند کرم فرمائوں میں سے ایک ہیں جو اگر گہری نیند سے بھی ہمیں جگا دیں تو ہم بخوشی ان کے ساتھ گفتگو کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے بہرحال انہوں نے ان دنوں فیس بکس پر سرگرم بعض ” نہاد” اور کچھ ”نام نہاد” لکھاریوں کی تحریروں پر ان کے حلقہ یاراں کی جانب سے کبھی جائز اور کبھی ناجائز تعریفی کمنٹس پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے سوال کیا کہ ”یہ سب کیا ہے؟ اور ہم میں سے اکثر لوگ فضول ، بے مقصد اور لایعنی تحریروں پر لکھاری کی بے جا تعریفوں کے پل کیوں باندھتے ہیں؟ ہم کیا جواب دیتے ، بس مسکرا کر کہا ، ہم من حیث المجموع منافقت کا شکار ہوچکے ہیں” ۔اگلا سوال بلکہ اعتراض انہوں نے ہم پر ہی کیا ، کہ آپ بھی بعض اوقات”اسی گنگا میں اشنان کرتے دکھائی دیتے ہیں اور اسی بات نے ہمیں آپ سے رجوع کرنے پر مجبور کیا ہے ، مگر اس خوف سے کہ کہیں آپ برا نہ منائیں ہم خاموش رہے” ۔ ہم نے عرض کیا کہ آپ ہماری طبیعت سے بخوبی واقف ہیں ہم دوستوں کے دل سے نکلی ہوئی سچی باتوں کو قدر کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں اس لئے برا منانے کا کیا جواز ہو سکتا ہے ؟ بہرحال آپ کے سوالکا جواب تو اس شعر میں موجود ہے کہ
دیدہ وروں کے شہر میں ہر ایک پستہ قد
پنجوں کے بل کھڑا ہے کہ اونچا دکھائی دے
ہمدرد دیرینہ کے استفسار سے ادب میں رائج ایک بہت پرانی اصطلاح یاد آگئی یعنی انجمن ستائش باہمی ، جو ادبی گروہ بندی کے حوالے سے بہت مبقول تھی اور جہاں ایک خاص گروہ سے تعلق رکھنے والے اپنے دائرہ اثر کے ادباء و شعراء کی تخلیقات پر ادبی محفلوں میں کبھی جائز اور زیادہ تر بے جا تعریفوں کے ڈونگرے برسا کرمخالف گروہ پر رعب جھاڑنے کی کوشش کرتے تھے ، تب یہ کام محدود پیمانے پر مقامی سطح پر ہوتا تھا ، مگر جب سے سوشل میڈیا کا غلبہ ہوا ہے یہ کام ڈھٹائی کی حد تک بڑھ گیا ہے اور لوگ اپنی تخلیقات فیس بک اور یوٹیوب وغیرہ پرڈال کر ان کی پذیرائی کی جاو بے جا توقعات کرتے ہیں جبکہ ان پوسٹوں پر جاننے والوں کے علاوہ غیر متعلقہ لوگ بھی واہ واہ ، ماشاء اللہ ، بہت خوب اور اسی نوع کے تبصروں سے غیر معیاری تحریروں پر بھی ادیبوں ، شاعروں کے ساتھ متشاعروں اور اتائیوں کوبھی غلط فہمی میں مبتلا کر دیتے ہیں یہ تو خیر پھر بھی کار ادب سے جڑے ہوئے لوگوں کے علاوہ ادب و شعر سے صرف دلچسپی رکھنے والوں کا حال ہے جبکہ اس سوشل میڈیا پر ایسے ”شوقین مزاج” لوگ بھی صرف ”کمپنی کی مشہوری” کے لئے ثقہ اور مستند شاعروں کے کلام کو تبدیل کرکے یا ان کے نام سے خود ساختہ اشعار لکھ کر بعض مرحوم شعراء کرام کو قبر میں بھی آرام سے سونے نہ دینے کی حرکتیں فرماتے رہے ہیں، مثلاً احمد فراز ، علامہ اقبال ، فیض اور اسی قد کاٹھ کے شعراء کے نام پر کسی نامعلوم شاعر کے کلام کو ان سے منسوب کرکے تباہی مچانے اور بقول امجد بہزاد یہ احساس دلانے کی کوشش کرتے رہے ہیں کہ
ایک آزاد پرندہ ہوں جہاں چاہوں اڑوں
میں ترے شہر گرفتار سے باہر آیا
بات کسی اور سمت نہ چلی جائے ، بہتر ہے کہ موضوع زیر بحث ہی مد نظر رکھا جائے ، ہمدم دیرینہ نے ہماری” سرزنش” کے حوالے سے ایک خاص شخصیت کی تحریروں پر ”احباب” کی جانب سے تعریفوں کے ڈونگرے برسانے پربھی توجہ دلائی ، تو ہم نے بغیر کسی حیل و حجت کے تسلیم کیا کہ واقعی ہم بھی اسی بھیڑچال کا کبھی کبھی شکار ہو جاتے ہیں اور کسی ایک نہیں کئی لوگوں کی ”تخلیقات” پرتبصرہ کرنے میں فراخدلی کا مظاہرہ کرنے پر اس لئے مجبور ہوجاتے ہیں کہ اکثر لوگ ہمیں ان پوسٹوں پر ہماری رائے جاننے کے لئے ہمیں ٹیگ کرلیتے ہیں یہاں تک کہ بھارت کے کئی ویب سائٹس جو اردو ادب کی ترویج کیلئے سرگرم ہیں وہ بھی مسلسل ا صرار کرتے ہیں کہ ان پر پوسٹ کی جان والی تحریروں پر ہم بھی رائے دیں ، حیرت کی بات یہ ہے کہ ان ویب سائٹس پر ڈالی جانے والی شاعری میں سے اکثر میں وزن ، بحر اور معیار کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا ، اس لئے ہم کم کم ہی ان پر توجہ دیتے ہیں البتہ مقامی سطح پر جو تحریریں فیس بک ، یو ٹیوب اور ٹویٹر(ایکس) پر سامنے آتی ہیں تو کبھی کبھی ”منہ کا ذائقہ” بدلنے کیلئے اپنی رائے دے دیے ہیں تاہم اس کامقصد لکھاریوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے ، مگر ہمیں یہ بات تسلیم کرنے میں کوئی عذر نہیں کہ اکثر ایسی تحریروں کی حوصلہ افزائی کی غلطی بھی ہم کر بیٹھتے ہیں جو معیار کے حوالے سے قابل توجہ کے زمرے میں نہیں آتیں ، مگر کیا کیا جائے کہ یہ رویہ بھی اب ایک فیشن بن چکا ہے متعلقہ ”لکھاری” پڑھنے والوں سے ”کمنٹس” کی توقع لگائے ہوتے ہیں گویا ان میں سے اکثر (متشاعر قسم کے لوگ) قارئین کو ”منافقت” پر مجبور کرتے ہیں اور بقول حفیظ جالندھری دعویٰ کرتے ہیں کہ
حفیظ اہل زباں کب مانتے تھے
بڑے زوروں سے منوایا گیا ہوں

مزید پڑھیں:  چوری اور ہیرا پھیری