موت کا کنواں

اگرچہ تھوڑی سی تاخیر ضرور ہوئی ہے لیکن ابھی بھی پودے لگانے کا موسم گیا نہیں خاص طور پر نرسری سے پلاسٹک ٹنل میں لگے پودے تو باآسانی لگائے جا سکتے ہیں بہرحال بات ماحولیات پر کرنی ہے اور جہاں تک ماحول کی بات ہو تو پودے اور درخت و جنگلات کے کلیدی اہمیت ہی کا تذکرہ ہونا فطری امر ہے ۔ مجھے سندھ سے آن لائن ماحولیاتی آلودگی کے ایک واٹس گروپ میں کسی نے شامل کیا ہے اب وہیں سے جنگلی حیات بارے بھی گروپ کی تشکیل کرکے وہاں بھی قدرتی معاملات اور جانوروں سے لے کر حشرات الارض تک کی معلومات میں شامل کیاگیا ہے دلچسپی کی بات ہے مجھے قدرتی طور پر فطرت اور قدرت کے نظارے وعجائبات و خلائق ان کے حوالے سے معلومات اور ان کی فطرت و عادات کے مطالعے سے قدرتی طور پر دلچسپی ہے اسی گروپ سے شعور و آگہی کے لئے چند چیزیں آپ سے بھی اس امید کے ساتھ شیئر کرتی ہوں کہ قدرت و فطرت کا مطالعہ قارئین کے لئے بھی دلچسپی کا باعث ہو گا۔ یقینا پودے ہماری زمین کے لئے بے حد اہم ہیں وہ نہ صرف ماحول کو خوبصورت بناتے ہیں بلکہ زندگی کے لئے ضروری آکسیجن بھی فراہم کرتے ہیں ہوا کی صفائی میں پودوں اور سبزے کے کردار کا کوئی ثانی نہیں اس لئے کہ پودے کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرکے ہماری فضا کو صاف ستھرا رکھتے ہیں اور گلوبل وارمنگ یعنی ماحولیاتی حدت کے اثرات کو کم کرنے میں مدد دیتے ہیں اس کے علاوہ پودے مٹی کی کٹائو کو روکنے اور پانی کے ذخائر کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اس امر کے اعادے کی ضرورت نہیں کہ پانی کے بے دریغ استعمال سے پشاور میں پانی کی سطح کتنی نیچے چلی گئی ہے اسلام آباد ، لاہور ، کراچی اور دیگر بڑے شہروں میں توپانی کا بحران آچکا ہے پانی کے ٹینکر مہنگے داموں طویل انتظار کے بعد خریدنے والوں ہی کو معلوم ہے کہ آب حیات کی قدر و قیمت ہوتی کیا ہے جن لوگوں کو یہ نعمت و افر و مفت میسر ہے وہ اس کی قدر کیا جانیں وہ تب جانیں گے جب ان کوبھی خدانخواستہ قلت آبنوشی سے واسطہ پڑے گا ۔ آبپاشی کا پانی بھی بے تحاشا ٹیوب ویلز لگا کر نکالنے سے قریب الاختتام ہے سولر ٹیوب ویلز مفت میں پانی ضرور کھینچتے ہیں مگر یہ سودا چند ہی سالوں میں مہنگا پڑنے والا ہے خدا خیر کرے یہ جو گلوبل وارمنگ کے باعث بارشوں کے موسم اور ہیئت میں تبدیلی سیلاب اور گلیشر پگھلنے کی رفتار میں تیزی آگئی ہے اس سے ڈر لگتا ہے دبئی میں بارشیں کم سے کم ہوا کرتی تھیں اب دبئی ڈوب گیا ہے برطانیہ اور امریکا کی صورتحال سے بھی آپ واقف ہی ہوں گے کم و بیش دنیا کے ہر خطے اور تمام ممالک میں ایک طرف جہاں پانی ناپید ہے وہاں دوسری جانب وہ ممالک بھی دبئی وینس کا منظربھی ساتھ ہی میں پیش کر رہے ہوتے ہیں قدرت اپنی نعمت کو زحمت بنا دے تو بھگتنا ہر ایک کو پڑتا ہے بہرحال بات پودوں کی ہو رہی تھی پودوں کو زمین کے پھیپھڑے کہا جاتا ہے کیونکہ وہ آکسیجن کے ماخذ ہیں اور فضا کو آلودگی و کثافت اور مضر مادوں سے پاک کرتے ہیں اگر زمین پر پودے نہ ہوتے تو ہماری دنیا ایک گردو غبار کا اجاڑ خطہ ہوتی نہ ہریالی ہوتی نہ رنگ برنگ کے پھول پودے ہمیں جسمانی آسائشیوں کے ساتھ ساتھ ذہنی فرحت وانبساط بھی فراہم کرتے ہیں اس لئے پودوں کی حفاظت کو ان کی افزائش کرنا کرہ ارض کو بچانے کے لئے انتہائی ضروری ہے ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے ارد گرد شجر کاری کو فروغ دیں اور ماحول دوست رویئے اپنائیں تاکہ ہماری زمین صحت مند اور سرسبز رہ سکے ۔ دوسرا مسئلہ پانی کا ہے پاکستان میں پانی کے ضیاع کی صورتحال کافی سنگین ہے بی بی سی اردو کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں بارشوں سے ہر سال تقریباً 45 ملین ایکڑ فٹ پانی آتا ہے لیکن ذخیرہ کرنے کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے 13.7 ملین ایکڑ فٹ پانی ہی بچایا جا سکتا ہے باقی پانی ضائع چلا جاتا ہے اس کے باوجود اس سنگین مسئلہ پر توجہ دینے اور قدرتی نعمت سے استفادے کی کوئی سنجیدہ سعی نظر نہیں آتی ایک اور رپورٹ کے مطابق پاکستان پانی کی شدید کمی کا شکار ملکوں میں تیسرے نمبر پر اور پانی کو ضائع کرنے والے ملکوں کی درجہ بندی میں چوتھے نمبر پر ہے اس کے علاوہ پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر کی جانب سے 2017 میں جاری کردہ ایک انتباہ کے مطابق کہ اگر پانی کے ضیاع کو روکا نہیں گیا تو 2025 ء تک یعنی اب ایک سال بعد ملک میں پانی کی شدید قلت ہو سکتی ہے پانی کے ضیاع کو روکنے کے لئے پاکستان میں مختلف اقدامات کی ضرورت ہے جیسے کے ذخیرہ کرنے کی بہتر سہولیات کی تعمیر زراعت میں پانی کے استعمال کو باکفایت بنانا اور عوام میں پانی کے محفوظ استعمال کے بارے میں شعور اجاگر کرنا شامل ہے ۔ موسمیاتی تبدیلی وتغیر صرف پاکستان کا نہیں عالمی مسئلہ ہے اقوام متحدہ کی موسمیاتی تبدیلی کے ایگزیکٹو سیکرٹری سائمن اسٹیل نے خبردار کیا ہے کہ دنیا کو آب و ہوا میں تیزی سے رونما ہوتی تبدیلی کے اثرات سے بچانے کے لئے صرف دو سال باقی ہیں ان کا کہنا ہے کہ زمین سے زہریلی گیسوں کے اخراج کو روکنے کے لئے ڈرامائی تبدیلیاں اور فیصلے ناگزیر ہیں اس انتباہ کا مقصد خاص طور پر جی 20 ممالک پر آب و ہوا میں تبدیلی کو روکنے پر زور دینا تھا جن میں امریکا ، چین اور بھارت جیسی ترقی یافتہ اور ترقی پذیر معیشتیں شامل ہیں جو زمین سے حرارتی اخراج کے 80فیصد کے ذمہ دارہیں اس تناظر میں عالمی رہنمائوں کو موسمیاتی تبدیلی کے خلاف فوری اور موثر اقدامات کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے ۔ پانی اور آب و ہوا ہی انسانی ضرورت نہیں بلکہ دیگر بھی ضرورتیں بھی ہیں اور خود انسان اپنے ہاتھوں جس طرح اپنی ہلاکت کے گڑھے کھود رہا ہے وہ بھی کم نہیں قدرتی حالات اور انسانی عادات و اطوار اور احتیاجات سبھی مل کر کرہ ارض کی تباہی کے درپے ہیں لیکن ہم پھر بھی عقل کے ناخن لینے والے نہیں اور اپنی ہلاکت کا ساماں خود ہی کرنے میں مصروف ہیں اور بس!۔

مزید پڑھیں:  چاندپر قدم