پہلے تولو پھر بولو

سوشل میڈیائی حکومت کی تسلسل والی حکومت والوں نے وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کو ٹک ٹاک وزیر اعلیٰ کا نام دیا تو میں بھی محظوظ ہوئی یہ ایک موزوں اور حسب حال طنز تھا طنز کی تعریف یہ بیان کی جاتی ہے کہ اس میں کاٹھ تو ہو لیکن تضحیک نہ ہو اس فرق کو سمجھنا اور برقرار رکھنا دشوار ہو گیا ہے اب تو تضحیک اور طنز کا فرق تو درکنار اب تضحیک کا جادو سر چڑھ بول رہا ہے طنازہونا کوئی آسان کام نہیں اس کے لئے ادب سے واقف اور الفاظ کے استعمال کا ملکہ ہونا چاہئے جس کی بے حد کمی ہے طنز کی ایسی لطیف کیفت ہوتی ہے کہ جس پر طنز کی جائے وہ بھی بے مزہ نہ ہو یا کم از کم تضحیک وتوہین محسوس نہ کرے ادبی وصحافتی دنیا کے باسی جب باہم مل بیٹھتے ہیں تو ان کی گفتگو اور الفاظ کی کاٹھ سننے والی ہوتی ہے مگر اب کم ہوتی جارہی ہے اس دنیا میں ایسے ایسے ماہرین گفتگو اور باہم الفاظ کے معانی و مفہوم نکالنے والے دیکھے ہیں کہ بھری محفل میں کسی کا فون آجائے ایسے الفاظ میں گفتگو کرتے ہیں جن کو سننے والے کوئی قطعی معنی و مفہوم نہیں دے سکتے بس گپ شپ ہی سمجھنے لگتے ہیں حالانکہ وہ گفتگو گپ شپ کے انداز میں حساس معلومات کے تبادلے سے لے کر چٹکلے بازی تک ہوتی ہے جس کی بناپر سامع کو یہ سمجھ نہیں آتی کہ بدلتی گفتگو کا اصل مقصد و مدعا کیا ہے میں کسی روایتی تبادلہ معلومات کے اداروں کے کارکنوں کی بات نہیں کرتی ان کی اپنی الگ زبان ہوتی ہے اس کو سمجھنا ہم جیسوں کے لئے ضروری بھی نہیں میں ان لفظوں کے جادوگروں کی بات کر رہی تھی جو الفاظ کا جادو جگاتے ہیں جو کہیں لفظوں کی سوداگری کر رہے ہوتے ہیں اورکہیں الفاظ کی جادو گری بات کافی دور نکل گئی مگر تمہید اچھی ہوئی کہ گفتگو ضرور کیجئے تنقید بھی ہو اور طنز بھی مگر تضحیک نہیں کہ تصحیک دوسروں کی کی جاتی ہے مگر بندہ آپ بھی اچھا نہیں لگتا حکومت کی سربراہی کرتے ہوئے تو تول کر بولنا چاہئے دلیل اور سچائی کے ساتھ کہ آج کل میڈیا والے تضاد بیانی کے کلپ چلا کر خجل کرنے کے لئے تیار بیٹھے ہوتے ہیں بالکل اس طرح کہ یاد ماضی عذاب ہے یا رب چھین لے مجھ سے حافظہ میرا ۔
وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا سے شہد کی طرح شیریں گفتگو کی توقع نہیں کی جا سکتی سیاستدانوں میں محمد علی درانی ہی شہد کی دلدل کے نام سے مشہور تھے کچھ اور بھی ادیب و لکھاری قسم کے سیاستدانوں کو مناسب لفظوں میں گفتگو کرنے کاملکہ ضرور حاصل ہے مگر تضاد بیانی ہو ہی جاتی ہے کل کا ناخوب آج خوب او رکل کی تلخی آج کی مٹھاس کا درجہ لے لیتی ہے اسے سیاسی مجبوری کہئے اور جانے دیجئے مگرتضحیک اور وہ بھی کسی خاتون سیاستدان کی یہ نہیں ہونی چاہئے خواجہ آصف نے مولانا فضل الرحمن کو ڈیزل کا خطاب دیا تو تحریک انصاف نے بھی اسے اپنا یا بلکہ ہائی جیک کر لیا اب کہیں جا کے اس لفظ کے استعمال میں کمی ہوئی ہے پھر بھی گزشتہ روزسینیٹ میں عرفان صدیقی نے ادبی انداز میں پی ٹی آئی کے سینیٹروں کو یاد دلایا کہ وہ آج جن کے پروں تلے پناہ ڈھونڈنے نکلے ہیں”ان” کا نام تک بھول گئے تھے یعنی ان کو اصل نام سے یاد نہیں کیا کرتے تھے خواجہ آصف نے شیریں مزاری کوبھی ٹریکٹر ٹرالی کا نام دیا تھا مگر چونکہ خاتون تھیں اس لئے اس نام کو پذیرائی نہ ملی اور ملنی بھی نہیں چاہئے تھی تضحیک مرد کی ہو یا عورت کی اس کی دین میں بھی ممانعت ہے تہذیب میں بھی اور اقدار وروایات بھی اس کی اجازت نہیں دیتے کجا کہ ایک خاتون کے حوالے سے محض اس بناء پر معنی خیز گفتگو کی جائے کہ وہ ملک کے سب سے بڑے صوبے کی وزیر اعلیٰ ہیں اور اس کی ممکنہ منزل اسلام آباد بھی ہوسکتی ہے پارٹی میں بھی ان کی حیثیت اور جلسوں میں ان کی خطابت بھی معقول ہے ان کا سیاسی و حکومتی کارکردگی کے میدان میں ڈٹ کر مقابلہ کیا جائے سیاسی دنیا میںصنفی بنیاد پر مقابلہ بازی کو روایتی مردوں کا شیوہ نہ ہونے کا قراردینے کی گنجائش نہیں مگر ان کے حوالے سے اس قسم کی گفتگو کہ سننے والے مرد صحافی قہقہے لگائیں اور خاتون صحافیوں کے رخساروں پر شرمساری کی سرخی آئے موزوں نہیں اس طرح کی گفتگو کا خود اپنے گھر کی خواتین بھی برا منا لیتی ہوں گی کہ یہ کیا کہہ دیا۔انہوں نے خاتون پولیس کانسٹیبل کی وردی پہنی اور ٹوپی اعلیٰ ا فسران کی اور بغل میں چھڑی لی تو مضحکہ خیزتو لگا اس پر طنز بھی روا ہے لیکن تضحیک آمیز بیان کی گنجائش نہیں تھی اور وہ بھی حکومت وقت کے سربراہ کادلچسپ امر یہ ہے کہ اس کا رواج پہلے نہیں تھا موجودہ وزیر داخلہ اور اس وقت کے نگران وزیر اعلیٰ پنجاب نجانے کیوں اس کی بنیاد رکھ گئے تھے اور آئی جی نے بھی سابق دور میں اس کا اعلامیہ بھی جاری کیا تھا کہ گورنر اور وزیر اعلیٰ پولیس کی وردی پہن سکتے ، سکتی ہیں انہوں نے خاتون وزیر اعلیٰ کا شاید سوچا نہ ہو گاچلیں اسی بہانے کچھ شغل میلہ رہا اور تصاویر شیئر ہوتی رہیں اس سے زیادہ نہیں ہونی چاہئے اب شنید ہے کہ موصوفہ کے لئے ایک اور پاسنگ آئوٹ پریڈ کے لئے ملیشیاء کی وردی تیار کر لی گئی ہے مضحکہ نہ جانئے کبھی غور کیا ہے کہ فرنٹیئر کانسٹیبلری میں وقتی و مدتی خدمات انجام دینے والی خواتین اے ایس پیز ملیشیاء کلر کی شلوار قمیض کے ساتھ چارسدہ والی مردانہ چپل پہنتی ہیں خیبر پختونخوا پولیس کی اچھی قدوقامت کی ثانیہ شمروز کی وردی بھی بری نہیں لگتی دھان پان قسم کی خاتون پولیس افسران تو بڑے چائو سے وردی پہن کر گود میں بچے بھی اٹھا کر دفتر آتی جاتی ہیں اب وہ زمانہ نہیں کہ خواتین گھروں میں روایتی پکوان پکا کرخاتون خانہ بن کر شوہر بچوں انتظار میں بیٹھی رہیںاب تو دیکھا جائے تو خواتین مردوں سے بہت آگے نکل گئی ہیں ملازمت بھی کرتی ہیں اور گھر داری بھی اب وہ صنفی طور پر خاتون اور عملی طور پر مرد میدان کیوں کیا سمجھے؟۔

مزید پڑھیں:  سنگ آمد سخت آمد