چوری اور ہیرا پھیری

ابھی چند روزپہلے ضلعی انتظامیہ اور نانبائیوں کے درمیان عوامی شکایات پر روٹی کے وزن اور قیمتوں کے تعین کا معاملہ طے کرتے ہوئے فیصلہ کیا گیا کہ سنگل روٹی پندرہ روپے جبکہ ڈبل(دوگنے وزن کی) روٹی تیس روپے میں فروخت کی جائے گی ، اس ضمن میں دنوں قسم کی روٹیوں کے لئے وزن بھی مقرر کیا گیا ، اگرچہ ابتداء میں اس فیصلے پر نان فروشوں نے ناک بھوں چڑھائے اور دبی زبان سے احتجاج بھی کیا تاہم انتظامیہ کے سخت رویئے پر سر تسلیم ختم کرتے ہوئے خاموشی ہی میں عافیت سمجھی جبکہ جن لوگوں نے کچھ زیادہ ہی شور مچانا شروع کیا تو ان کا چالان کئے جانے کے اطلاعات کے بعد معاملہ کسی حد تک ٹھنڈا پڑ گیا ، مگر ابھی چند روز ہی گزرے تھے کہ ”خموشی کے اندر سے طوفان” کی لہریں اٹھنا شروع ہوئیں اور بقول شخصے”دیکھئے اس بحر کی تہہ سے نکلتا ہے کیا؟” کی اصل صورتحال بالآخر سامنے آہی گئی اور شہر کے مختلف علاقوں سے آنے والی اطلاعات سے اس ”تگڑم بازی” کی نشاندہی ہو رہی ہے یعنی ایک تو یہ کہ اکا دکا علاقوں کے علاوہ باقی شہر میں ”سنگل روٹی” تو سرے ے ہی غائب ہو چکی ہے جبکہ دوگنے وزن کی جو روٹی ابتدائی چند روز کے دوران دوگنی قیمت یعنی تیس روپے میں مل رہی تھی اس کاوزن خاموشی کے ساتھ کم کرکے یعنی دوسو گرام وزن کی روٹی ڈیڑھ سو گرام کرکے دھڑلے سے تیس روپے میں فروخت کی جارہی ہے یوں عوام کا استحصال ایک بار پھر شروع کردیا گیا ہے اور یہ سب کچھ انتظامیہ کی چھتری کے عین نیچے ایک بار پھر شروع کر دیاگیا ہے اگرچہ اصولی طور پروہ جو سو گرام کی سنگل روٹی کی قیمت پندرہ روپے مقرر کی گئی تھی اس میں بھی لوٹ مار کے مواقع خود انتظامیہ ہی نے فراہم کئے تھے اس لئے کہ اب ایک روٹی خریدنے والے بیس روپے ادا کرنے پر اس لئے مجبور تھے کہ پانچ روپے کا سکہ بھی غائب ہو چکا ہے اور کہیں دوربین میں بھی نظر نہیں آتا ، تو پھر عوام کے ساتھ اس قسم کے مذاق کیوں کئے جاتے ہیں جبکہ اب ایک بار پھر کم وزن کی (ڈبل) روٹی کے تیس روپے وصول کرنا عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالنے کے مترادف ہے کیا انتظامیہ نانبائیوں کے سامنے اس قدر بے بس ہے کہ وہ عوام کی داد رسی کو تیار نہیں ہے؟کچھ علاج اس کابھی اے شیشہ گراں ہے کہ نہیں؟؟۔

مزید پڑھیں:  غیر معمولی اصلاحات کی ضرورت