من حیث القوم بھکاری

خبر ہے کہ سعودی عرب میں گداگروں کے خلاف کاروائیاں تیز کر دی گئی ہیں، بڑی تعداد میں گداگروں کو گرفتار کیا گیا ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ ان میں سے نوے فیصد پا کستانی ہیں، حالیہ رمضان میں صرف مکہ مکرمہ میں ساڑھے چار ہزار بھکاریوں کو گرفتار کرلیا گیا، بھکاریوں سے متعلق حیران کن حقائق کے مطابق پاکستان میں تین کروڑ اسی لاکھ بھکاری ہیں جن میں بارہ فیصد مرد، پچبن فیصد خواتین، ستائیس فیصد بچے اور باقی سفید پوش مجبور افراد ہیں، ہر بھکاری کو اوسطاً ایک دن میں ساڑھے آٹھ سو روپے ملتے ہیں، اس طرح یہ بھکاری روازانہ لوگوں کی جیبوں سے بتیس ارب روپے نکال لیتے ہیں، اور سال میں یہ رقم ایک سو سترہ کھرب بنتی ہے، اس خیرات کا نتیجہ ہمیں سالانہ اکیس فیصد مہنگائی کی صورت میں بھگتنا پڑتا ہے اور ملکی ترقی کے لئے یہ بھکاری کوئی افرادی قوت فراہم نہیں کرتے ہیں،اقبال نے کیا خوب صورت فرمایا تھا
غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ ودو میں
پہناتی ہے درویش کو تاجِ سردارا
اللہ پاک کے بھیجے گئے ہر نبی نے اسی وجہ سے اپنے لئے کوئی نہ کوئی ذریعہ معاش اپنایا، حضرت آدم نے کھیتی باڑی اور حضرت زکریا بڑھئی کا کام کرتے تھے، حضرت موسیٰ بھیڑ بکریاں چرایا کرتے تھے، حضرت ادریس درزی کا کام کرتے تھے، حضرت داؤد آہن گر تھے، حضرت ابراہیم کپڑے کا کام کرتے تھے، حضرت اسمٰعیل تیر بناتے تھے اورآقائے دوجہاں حضرت محمد ۖ نے مزدوری پر بکریاں بھی چرائیں اور تجارت بھی کی، لیکن جب لوگ سہل پسندی کا شکار تو ہوئے بجائے ہاتھ سے کام کرنے کے لوگوں نے دوسروں سے مانگنا شروع کیا اور یہی گداگری کی ابتداء تھی، گداگری فارسی زبان کا لفظ ہے جس کے معانی بھیک مانگنے والا، بھکاری، ہاتھ پھیلانے والا،منگتا اور سوالی وغیرہ ہیں، آقاۖنے اپنے در سے کسی سائل کو خالی نہ لوٹایا مگر اس کی حوصلہ افزائی بھی نہ فرمائی، اس کی وضاحت سنن ابن ماجہ کی اس حدیث ِمبارکہ سے ہوتی ہے کہ ایک انصاری مرد نبی کریمۖ کی خدمت میں حاضر ہوا اور سوال کیا، آپ نے فرمایا تمہارے گھر میں کچھ ہے؟ عرض کیا ایک کمبل ہے، کچھ بچھالیتے ہیں اور کچھ اوڑھ لیتے ہیں اور پانی پینے کا پیالہ ہے، فرمایا دونوں لے آؤ، وہ دونوں چیزیں لے آیا، آپ نے دونوں چیزیں اپنے ہاتھوں میں لیں اور فرمایا یہ دو چیزیں کون خریدے گا؟ ایک شخص نے عرض کیا کہ یا رسول اللہۖ میں دونوں چیزیں ایک درہم میں لیتا ہوں، آپ نے دو تین مرتبہ فرمایا کہ ایک درہم سے زائد کون لے گا، ایک مرد نے عرض کیا میں دو درہم میں لیتا ہوں تو آپ نے دونوں درہم انصاری کو دئیے اور فرمایا ایک درہم سے کھاناخرید کر گھر دو اور دوسرے سے کلہاڑا خرید کر میرے پاس لے آؤ، اس نے ایسا ہی کیا، آپ نے کلہاڑا لیا اور اپنے دست مبارک سے اس میں دستہ ٹھونکا اور فرمایا،جاؤ،لکڑیاں اکٹھی کرو اور پندرہ یوم تک کام کرنا، وہ لکڑیاں چیرتا رہا اور بیچتا رہا پھر وہ حاضر ہوا تو اس کے پاس دس درہم تھے، فرمایا کچھ کا کھانا خرید لو اور کچھ سے کپڑا، پھر فرمایا کہ خود کمانا تمہارے لئے اس سے بہتر ہے کہ تم قیامت کے روز ایسی حالت میں حاضر ہو کہ مانگنے کا داغ تمہارے چہرہ پر ہو، مانگنا درست نہیں سوائے اس کے کہ جو انتہائی محتاج ہو یا سخت مقروض ہو یا خون میں گرفتار ہو، جب آپ سے کسب کے بارے میں دریافت کیا گیا کہ کون سا کسب یا کاروبار اچھا اور اعلیٰ ہے تو اس پر آپ نے ہاتھ سے کا م کرنے کو ہی افضل قرار دیا، حضرت عبداللہ سے مروی حدیث ہے کہ آپ نے فرمایا کہ بنیادی فرائض کے بعد رزقِ حلال کی طلب سب سے بڑا فرض ہے، آپ نے مال دار اور تندرست شخص کیلئے صدقہ و خیرات کو حرام قرار دیا ہے، رسول اللہ ۖ نے ارشاد فرمایا کہ مالدار کیلئے اور تندرست و توانا کیلئے صدقہ حلال نہیں، (سنن ابن ماجہ )، قارئین کرام ہمارے سامنے بنگلہ دیش کی مثال ہے کہ جس نے جس دن بھکاری مافیا کو خدا حافظ کہا تھا، اس کے صرف چار سال بعد اس کے پاس باون ارب ڈالر کے ذخائر تھے، ہماری تو فطرت میں مانگنا شامل ہے، اور ہم یہ سمجھتے ہیں کہ لوگوں سے مانگنے سے سب ملتا ہے، حالانکہ اصول یہ ہے کہ دینا شروع کریں آنا شروع ہو جائے گا۔ ہمارا یہ حال ہے کہ ہر کوئی اپنی دانست میں بھکاری ہے، ہر کوئی مانگنے والا ہے، طالب علم نمبر مانگ رہے ہیں، ڈگری والے نوکریاں مانگ رہے ہیں، نوکری والے ترقی مانگ رہے ہیں، ہر کسی نے دامن پھیلایا ہوا ہے، اس ملک کا یہ حال ہوا ہی اس لئے ہے کہ آج تک ہر کسی نے صرف اپنا حق مانگا ہے، فرض کسی نے ادا نہیں کیا، اور جس ملک میں تعلیم کا بجٹ پیتیس ارب اور بے نظیر ان کم سپورٹ پروگرام کا بجٹ چار سو پچاس ارب ہو وہاں کوئی ہنر مند، باشعور اور غیر مند افراد نہیں بلکہ صرف بھکاری ہی پیدا ہوں گے۔

مزید پڑھیں:  غیر معمولی اصلاحات کی ضرورت