بار بار کی خلاف ورزیاں

سپریم کورٹ نے ترقیاتی منصوبوں پر سیاستدانوں کے ناموں کی تختیاں لگانے پر ایک بار پھر پابندی عائد کر دی ہے اور وفاقی و صوبائی حکومتوں سے 2 ہفتے میں عمل درآمد رپورٹ اور خیبرپختونخوا حکومت سے ترقیاتی فنڈز آئین اور قانون کے مطابق خرچ کرنے پر رپورٹ بھی طلب کر لی ہے۔ عدالت کی جانب سے کہا گیا ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں ترقیاتی فنڈز اور تشہیر کے معاملے پر عدالتی احکامات کی خلاف ورزی کر رہی ہیں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ ارکان اسمبلی نے لینڈ کروزر لینی ہو تو فوری پیسے نکل آتے ہیں، لینڈ کروزر خریدنے کیلئے اسمبلی سے منظوری لیں کیوں سیاستدانوں کے نام پر سکیمیں بنائی جاتی ہیں؟اس طرح معاملات بارے کوئی سیاسی جماعت آواز نہیں اٹھاتی، سب کو اپنا حصہ چاہیے، عوامی رقم پر ذاتی تشہیر کیوں کی جاتی ہے، چین میں وزیر سے ارکان اسمبلی تک سب سائیکل پر جاتے ہیں، ہم لینڈ کروزر خریدنے میں لگے ہوئے ہیں۔امر واقع یہ ہے کہ خیبر پختونخوا کی بیورو کریسی کو جس طرح تھوک کے حساب سے گاڑیاں دینی کی غلطی کی گئی ہے وہ وقت دور نہیں جب اس پر نظر ثانی مجبوری بن جائے اور ان کے مراعات پر بھی نظر ثانی کی جائے چیف جسٹس کے ریمارکس میں مزید اضافہ ممکن نہیں سوائے اس کے کہ لقمہ بناتے وقت چھوٹی بڑی انگلیاں ایک سطح پر آکر لقمہ اٹھاتی ہیں یہاں بھی کم و بیش یہی معاملہ ہے خیبر پختونخوا کی حکومت ہو یا پنجاب اور سندھ کی صوبائی حکومتیں یا پھر ایوان زیریں و ایوان بالا جہاں اراکین کے مجموعی مفاد کاتقاضا ہو اور مراعات کا بل پیش کیا جائے ایوان اس طرح یکسوئی کا مظاہرہ کرتا ہے کہ ان میں کبھی کوئی اختلاف تھا ہی نہیں سرکاری خزانے سے خرچ ہونے والی رقم عوام کی ملکیت ہوتی ہے اس سے عوام کے لئے ترقیاتی کام کرتے ہوئے مختلف مفادات اور کمیشن کا حصول عام اور معمول کی بات ہے اس رقم سے منصوبے کی تیری کام کے آغاز اور اختتام اجتماع و رسومات پر جو مصارف آتے ہیں ان کی سرکاری طور پر گنجائش نہیں ہوتی اور نہ ہی کمیشن لینے کی گنجائش اس کیلئے ابتداء سے اختتام تک ملی بھگت کا سہارا لینے سے ا ضافی رقم کی ضرورت کو منصوبے میں پہلے سے شامل کرکے وصولی ہوتی ہے جس کا فائدہ اٹھاکر ٹھیکیدار بھی من مانی اورملی بھگت سے کام لیتا ہے جس سے عوامی منصوبوں کی نہ صرف لاگت میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ اضافی لاگت کے باوجود کام کا معیار بھی مطلوبہ معیار سے کہیں کم کا ہوتا ہے اس کے بعد اس پر تختیاں لگانے کی باری آتی ہے اب تو مضحکہ خیز طور پر گلی میں بلب کے ہولڈرز تک کو سیاسی جماعتوں کے رنگوں سے رنگنے کی روایت بد پڑی ہے اور ہر عوامی کام پر سیاست ہونے لگی ہے عوام بھی ان سطحی اقدامات سے بہل جاتے ہیں اور پراپیگنڈے کا شکار ہوتے ہیں اس سارے سلسلے کی ا صلاح کرکے اس عمل کی بندش ہی موزوں حل ہے اس حوالے سے عدالت کے احکامات بھی موجود ہیں مگر اس کی خلاف ورزی جاری ہے عدالت عظمیٰ کی جانب سے ایک مرتبہ پھر پابندی لگانے کا عمل احسن ضرور ہے البتہ احکامات کی خلاف وزی کے حوالے سے بھی عدالت کی جانب سے درگزر کی بجائے اس ضمن میں دیگر رویہ اپنایا جاتا تو آئندہ کے احکامات کی خلاف ورزی بارے تنبیہ ہو جاتی بہرحال یہ عدالت کی صوابدید تھی کہ درگزر سے کام لیا گیا متعلقہ حکام کو عدالتی احکامات سے روگردانی اختیار کرکے توہین عدالت کے مرتکب ہونے کی اجازت نہیں دی جا سکتی عدالتی احکامات عوامی مفادات کاعین تحفظ ہے جس پر عملدرآمد کرکے سرکاری خزانے سے رقم کے ضیاع اور بلاوجہ کی نمائش کی روک تھام میں آئندہ غفلت کا مظاہرہ نہ کیا جائے ۔

مزید پڑھیں:  امریکہ بھارت شکر رنجی اور پاکستان