فلسطینی عوام کیلئے ایک تاریخی دن

اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی میں فلسطینی ریاست کی مکمل رکنیت کے حق میں منظور ہونے والی قرارداد کی حمایت میں 143 ووٹ پڑے جبکہ نو ارکان نے مخالفت کی اور 25ممالک نے بائیکاٹ کیا۔ اسرائیلی نمائندے نے قرارداد کی منظوری کو اقوام متحدہ کا تعصب قرار دیتے ہوئے کہا کہ قرارداد نے یہودیوں کے خلاف تعصب کو ہوا دی ہے فلسطینی ریاست کی اقوام متحدہ میں مکمل رکنیت کے حق میں منظور ہونے والی قرارداد میں سلامتی کونسل سے سفارش کی گئی ہے کہ وہ فلسطین کے اقوام متحدہ کے مستقل رکن بننے کی قرارداد کی حمایت کرے اقوام متحدہ میں فلسطینی سفیر نے قرارداد کی منظوری کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ قرار داد کی منظوری سے محکموم فلسطینیوں کے حق آزادی اور ان کی ریاستی شناخت کو عالمی حمایت حاصل ہوئی ہے ، فلسطینی ریاست کو اقوام متحدہ کی مستقل رکنیت دینے کے حق میں منظور کی جانے والی قرارداد بلاشبہ اقوام کی آزادی حق خود مختاری کے ضمن میں اقوام متحدہ کے چارٹر کی عالمی سطح پر تائید ہے اسرائیلی نمائندے کا قرارداد پر اعتراض اور قرارداد کی منظوری پر ردعمل اصل میں غاصب صیہونی عزائم کی ترجمانی ہے ایک ایسی غاصب ریاست جس کی بنیادوں میں ہزار ہا مظلوم مرد وزن فلسطینی زندہ دفن کر دیئے گئے تھے بلکہ گزشتہ سات ساڑھے سات دہائیوں سے یہ غاصب ریاست فلسطینیوں کی نسل کشی میں مصروف ہے ستم یہ ہے کہ عالمی امن ا ور اقوام کی آزادی سے بڑھ کر جانوروں کے حقوق کے علمبردار بعض بڑے ممالک مظلوم فلسطینیوں کی حمایت میں محض زبانی جمع خرچ کرتے ہیں مگر صیہونی ریاست کی حق کے لئے ہر ممکن تعاون میں ہمہ وقت پیش پیش رہتے ہیں ، اس دوغلے پن کی حالیہ مثال حماس اسرائیلی جنگ ہے اس جنگ کے آغاز کے ساتھ ہی امریکہ ، برطانیہ اور فرانس کے علاوہ چند یورپی ممالک نے اسرائیل سے نہ صرف اپنا مالی اور دفاعی تعاون بڑھایا بلکہ حماس کو کچلنے کے لئے اسرائیل کو عملی تعاون بھی فراہم کیا ۔ ان حالات میں فلسطینی ریاست کی مکمل رکنیت کے حق میں منظور ہونے والی قرارداد تاریخ ساز اقدام ہے اسرائیلی نمائندے کی برہمی بلا وجہ نہیں پچھلے دو ہفتوں کے دوران اسرائیل نے امریکہ اور برطانیہ وغیرہ کے تعاون سے بھر پور انداز میں سفارتی مہم چلائی یہی نہیں بلکہ اسرائیل کے ہمنوامغربی میڈیا نے فلسطینی ریاست کی مکمل رکنیت کے حق میں پیش کی جانے والی قرارداد کو جنگجوئوں کی سرپرستی کا نام دیتے ہوئے پروپیگنڈے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ اس طور یہ کہنا بجا ہوگا کہ قرارداد کی منظوری درحقیقت سامراجی ٹولے کی شکست فاش ہے 143ممالک نے اسرائیلی سفارتی مہم اور مغربی ذرائع ابلاغ کے غیر مناسب پروپیگنڈے کا اثر قبول کئے بغیر جس طرح قرارداد کے حق میں ووٹ دیا اس سے اسرائیل اور اس کے سرپرستوں کو سبق حاصل کرنا چاہئے امر واقعہ یہ ہے کہ قرارداد کی منظوری فلسطینی عوام کی قربانیوں اور جدجہد کااعتراف ہے حیران کن بات یہ ہے کہ مشرقی تیمور کو آزادی دلوانے اور راتوں رات اسے عالمی برادری کا حصہ بنوانے میں پیش پیش رہنے والے بعض ممالک نے فلسطینی ریاست کے معاملے پر حقیقت پسندانہ طرزعمل اپنانے کی بجائے اسرائیل نوازی کے مظاہرے کو ترجیح دی۔ قرارداد کی مخالفت میں ووٹ دینے والے نو ممالک کم از کم منافقانہ طرز عمل کا مظاہرہ کرنے والے ان 25 ممالک سے بہتر ہیں جنہوں نے اس تاریخی قرارداد کی منظوری کے عمل کا بائیکاٹ کیا۔ گزشتہ روز منظور کی جانے والی قرارداد کے بعد اب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فلسطینی نمائندہ نہ صرف مباحثوں میں مکمل طور پر حصہ لے سکے گا بلکہ ایجنڈے کی ترتیب میں حصہ لینے کے ساتھ فلسطین کو مختلف کمیٹیوں میں بھی نمائندگی مل سکے گی یہ تاریخی قرارداد ایسے وقت میں منظوری کی گئی ہے جب مشرق وسطی میں حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ کا چوتھا ماہ مکمل ہونے کوہے اس جنگ میں اب تک 40 ہزار فلسطینی شہید ہو چکے ہیں ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق اسرائیل کی جارحانہ کارروائیوں سے غزہ کے مختلف علاقوں میں جو تباہی ہوئی اس کے تدارک کے لئے کم از کم سات ارب ڈالر کی ابتدا ضرورت پڑے گی ۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اسرائیلی سفیر نے گزشتہ روز جن خیالات کا اظہار کیا وہ در حقیقت صیہونی جارحیت اور حالیہ عرصہ میں کئے گئے جنگی جرائم کی پردہ پوشی کی بھونڈی کوشش ہے ہماری دانست میں مکمل رکنیت فلسطینی ریاست کا اخلاقی ، سفارتی اور قانونی حق ہے اس حق کی مخالفت کرنے والے کس منہ سے کرہ ارض پر آزادی اور انسانی حقوق کی باتیں کرتے ہیں اصولی طور پر تو اخلاقیات کے ٹھیکیدار ان ممالک کو صیہونی ریاست سے یہ دریافت کرنا چاہئے کہ مسئلہ فلسطین کے حل کے لئے منظور دو ریاستی فارمولے سے اسرائیل پیچھے کیوں ہٹا؟ بہر طور قرارداد کی منظوری کے لئے عالمی برادری کا تعاون حاصل کرنے کے لئے پاکستان سمیت جن ممالک نے کوششیں کی وہ لائق تحسین ہیں اس قرارداد کی منظوری سے فلسطینی ریاست اور عوام کو عالمی برادری میں ان کا وہ حق اور مقام مل گیا جو سامراجی گماشتوں کی وجہ سے اب تک نہیں مل سکا تھا۔

مزید پڑھیں:  صنفی تفریق آخر کیوں ؟