تعلیمی ایمرجنسی بمقابلہ آؤٹ آف دی بکس

دنیا میں اگر ہر چیز دیکھی جائے تو وہ باٹنے سے گھٹتی ہے مگر تعلیم ایک ایسی دولت ہے جو بانٹنے سے گھٹتی نہیں بلکہ بڑھ جاتی ہے۔تعلیم ہر انسان چاہے وہ امیر ہو یا غریب،مرد ہو یا عورت کی بنیادی ضرورت میں سے ایک ہے۔یہ انسان کا حق ہے جو کوئی اسے نہیں چھین سکتا۔ اگر دیکھا جائے تو انسان اور حیوان میں فرق تعلیم ہی کی بدولت ہیں لیکن یاد رکھنا تعلیم حاصل کرنے کا مطلب صرف سکول ، کالج ،یونیورسٹی سے کوئی ڈگری لینا نہیں بلکہ اسکے ساتھ تمیز اور تہذیب سیکھنا بھی شامل ہے تاکہ انسان اپنی معاشرتی روایات اور اقدار کا خیال رکھ سکے۔اب پاکستان میں بھی آئندہ چار سال کیلئے تعلیمی ایمرجنسی نافذ کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا اور تعلیمی بجٹ کو 0.5 فیصد بڑھا کر 5 فیصد کرنے کا بھی ہدف ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق 2 کروڑ 60 لاکھ سے زائدبچے سکولوں سے باہر ہیں۔وزیراعظم شہباز شریف نے تعلیمی ایمرجنسی لگانے کا عندیہ دیتے ہوئے یہ بھی کہا کہ اس سے بڑی مجرمانہ غفلت نہیں ہوسکتی کہ یہ بچے اور بچیاں سکول سے باہر ہیں لیکن میرا ایک عاجزانہ درخواست ہے کہ ان بچوں اور بچیوں کا کیا ہوگا جنہیں سکول میں معیاری تعلیم مہیا نہیں ہو رہی ہے سابق وزیراعظم عمران خان نے بھی کہا تھا کہ مشکل وقت سے نکلنے کیلئے ملک کو آؤٹ آف دی بکس سوچنا پڑتا ہے یعنی پرانی سوچ سے باہر نکلنا ہے لیکن یہ بات یاد رہے کہ جس زمین وآسمان کو ہم نے پھونک ڈالا یا پھونکنے والے ہیں ان کی خاکستر کے بغیر بھی ہمارا کام نہیں چل سکتا۔بقول اقبال:
پھونک ڈالے یہ زمین وآسمان مستعار
اور خاکستر سے آپ آپنا جہاں پیدا کرے۔
پرانی عمارتوں پر نئے پتھر ،نئے رنگ،اجلی سفیدی لگتی ہے تو ماضی کے سب جھری زدہ نشان ان میں گم ہو کر رہ جاتے ہیں۔نئے آنگن نئے پھول بوٹوں سے مہکنے لگتے ہیں لیکن یہ سچ ازل کے ورق پر لکھا جا چکا ہے کہ نسل آدم دنیا کے کسی کونے میں بھی ہوں گے تو اپنے رہنے کیلئے چھوٹا یا بڑا ایک گھر ضرور بنائیں گے۔پرانے اور نئے نظام کے درمیان جو عبوری دور ہوتا ہے وہ بڑے تذبذب ،بڑے مغالطوں اور بڑی الجھنوں اور آزمائش کا دور ہوتا ہے۔ہمارا موجودہ دور بھی ایک ایسا ہی دور ہے جس میں زندگی کے ہر شعبہ میں ایک افراتفری ،ہل چل ،اور ایک عدم اعتماد محسوس ہو رہا ہے۔ہمارے دور کی ایک سب سے زیادہ اہم اور ناقابلِ تردید حقیقت یہ ہے کہ اس نے انسانی زندگی کی مادی اصلیت کو روشن اور اجاگر کرکے اس کی حرمت اور برگزیدگی ہم سے منوالی۔جدید علوم کیساتھ ساتھ دینی تعلیم کی بھی بہت ضرورت ہے۔اسی تعلیم کی وجہ سے زندگی میں خدا پرستی،عبادت،محبت،خلوص،ایثار،وفاداری،خدمت خلق،اور ہمدردی کے جذبات بیدار ہوتے ہیں۔ تعلیم کا اولین مقصد ہمیشہ انسان کی ذہنی جسمانی اور روحانی نشوونما کرنا ہے لیکن اگر آج کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو محسوس ہوگا کہ پیشہ تدریس کو آلودہ کردیا گیا ہے۔کل تک حصول علم کا مقصد تعمیر انسانی تھا آج نمبرات اور مارک شیٹ پر ہے۔آج کی تعلیم صرف اس لئے حاصل کی جاتی ہے تاکہ اچھی نوکری مل سکے یہ بات کتنی حد تک سچ ہے اسکا اندازہ آج کل کی تعلیمی ماحول سے لگایا جاسکتا ہے جیسے بچوں کا صرف امتحان میں پاس ہونے کی حد تک اسباق کا رٹنہ ہے۔ فطرت بشری سے مطابقت کی بناء پر اسلام نے بھی علم حاصل کرنے کی حوصلہ افزائی کی ہے۔اس کے ابتدائی آثار ہمیں اسلام کے عہد مبارک میں ملتے ہیں۔چنانچہ غزوہ بدر کے قیدیوں کی رہائی کیلئے فدیہ کی رقم مقرر کی گئی تھی۔ان میں سے جو نادار تھے وہ بلا معاوضہ ہی چھوڑ دیئے گئے لیکن جو لکھنا پڑھنا جانتے تھے انہیں حکم ہوا کہ دس بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دیں تو چھوڑ دیئے جائیں گے۔دنیا کے بیشتر ممالک کو اس وقت مختلف نوعیت کے سیاسی واقتصادی بحرانوں کے علاؤہ نسلی، سرحدی ، نظریاتی،تعلیمی،علاقائی اور تاریخی مسائل کا سامنا ہے جن کی وجہ سے ایک طرف ان کی قومی یکجہتی وسالمیت خطرے میں پڑی ہوئی ہے اور دوسری طرف ان کی اقتصادی ،صنعتی،تعلیمی،اور سماجی ترقی کا عمل بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔پاکستان کو اس وقت جن بحرانوں اور مسائل کا سامنا ہے وہ عارضی نہیں بلکہ ان کی جڑیں بڑی گہری ہیں۔بدقسمتی سے یہاں ہر چیز میں مغرب کی مثال دی جاتی ہے ،چاہے تعلیم ہو یا سیاسی گفتگو ۔ میرے خیال میں تعلیمی شعبے کی سنگین صورتحال میں بہتری کیلئے ایمرجنسی کا نفاذ اچھا قدم ہے لیکن اس مقصد کیلئے تعلیمی بجٹ کو بڑھائے بغیر ممکن نہیں ہے اور ساتھ ساتھ جب حکومت غیر سرکاری تنظیموں کو اس میں شامل نہیں کریگی اور کمیونٹی آرگنائزیشن کو اس کا حصہ نہیں بنایا جائے گا اس مقصد کو حاصل نہیں کیا جاسکتا ہے۔

مزید پڑھیں:  امریکہ بھارت شکر رنجی اور پاکستان