تعلیمی اداروں میں منشیات کی بڑھتی لعنت

صوبے کے تعلیمی اداروں میں کمسن طالب علموں سے لے کر جوانسال طلباء و طالبات میں ای سگریٹ کی بڑھتی وباء توجہ طلب امر ہے صوبے کے تعلیمی اداروں میں منشیات کی با آسانی دستیابی و استعمال اور خاص طور پر ہاسٹلزکی صورتحال ناگفتہ بہہ بتائی جاتی ہے حال ہی میں صوبائی دارالحکومت پشاور کے ایک تعلیمی ادارے کے طالب علم جو تعلیم چھوڑ کر نشہ کی لت میں پڑ گئے تھے ان کی علاج و بحالی کی احسن سعی ہو چکی لیکن یہ کافی اس لئے نہیں کہ اس طرح کے سینکڑوں متاثرہ طالب علموں کا مسئلہ ہے بنا بریں اس ضمن میں سنجیدہ مہم شروع کرنے کی ضرورت ہے مشکل امر یہ ہے کہ جدید طریقوں سے تمباکو نوشی اور منشیات کے استعمال میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے جس کی واحد وجہ اس کی با آسانی دستیابی اور میسر آنا ہے جب تک ان ذرائع کو مسدود نہیں کیا جائے گا اس وقت تک تعلیمی اداروں میں بطور خاص اور نوجوانوں میں بالعموم نشہ آور اشیاء کی طرف رجحان کا خاتمہ ممکن نظر نہیں آتا مستزاد افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ برسر زمین حقائق سے منشیات فروشوں کے خلاف کوئی بڑی مہم نظر نہیں آتی اس امر کے اعادے کی ضرورت نہیں کہ صوبائی دارالحکومت پشاور اور صوبہ بھر میں منشیات کا استعمال اور منشیات کی سپلائی کادھندہ زور و شور سے جاری ہے گھوم پھر کر منشیات فروخت کرنے والے آزادی سے اپنا کام کررہے ہیں نشے کے عادی افراد نشے کی لت پوری کرنے کے لئے سٹریٹ کرائم بھی کرتے ہیں چوری اور دیگر واقعات میں بھی یہ عناصر ملوث پائے جاتے ہیں گو کہ نمائشی طور پر کچھ اقدامات سے انکار نہیں لیکن اس کے باوجود ان عناصر کی بیخ کنی کا وہعزم نظر نہیں آتا جس کی ضرورت ہے توقع کی جانی چاہئے کہ انسداد منشیات مہم موثر طور پر شروع کی جائے گی اور اس میں ملوث ہر سطح کے عناصر کے خلاف سنجیدہ اور نظر آنے والے اقدامات سے باور کرایا جائیگا کہ متعلقہ ادارے اپنا کام کر رہے ہیں۔

مزید پڑھیں:  صنفی تفریق آخر کیوں ؟