اس کی نوبت نہیں آنی چاہئے تھی

عالمی مالیاتی ادارے ( آئی ایم ایف ) نے پاکستان میں انتخابات کے باوجود برقرار سیاسی بے یقینی کی نشاندہی کرتے ہوئے اس امر کا تذکرہ کیا ہے کہ پی ٹی آئی سے وابستہ آزاد امیدواروں نے8فروری 2024کے انتخابات میں دیگر جماعتوں سے زیادہ ووٹ لئے۔ آئی ایم ایف کی سامنے آنے والی دستاویزات میں کہا گیا ہے کہ نئی حکومت نے اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ کی پالیسیاں جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا ہے، معاشی پالیسیوں کے عدم نفاذ، کم بیرونی فنانسنگ کے باعث قرضوں اور ایکسچینج ریٹ پر دبائو کا خدشہ ہے۔ آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ بیرونی فنانسنگ میں تاخیر کی صورت میں بینکوں پر حکومت کو قرض دینے کا دبائو بڑھے گا اور بینکوں پر حکومت کو قرض دینے کے دبائو سے نجی شعبے کیلئے فنانسنگ کی گنجائش مزید کم ہونے کا خدشہ ہے۔ دستاویزات میں بتایا گیا کہ پیچیدہ سیاسی صورتحال، مہنگائی اور سماجی تنائو ، پالیسی اصلاحات کا نفاذ متاثر کر سکتا ہے جب کہ اشیاء کی قیمتیں، شپنگ میں رکاوٹیں یا سخت عالمی مالیاتی حالات بیرونی استحکام کو متاثر کریں گے۔گو کہ آئی ایم ایف کوئی سیاسی یا بشری حقوق کا کوئی ادارہ نہیں کہ وہ کسی ملک کے سیاسی اور انسانی حقوق کے حوالے سے رائے زنی کرے اور نہ ہی ایسا کرنا ان کے لئے روا ہے آئی ایم ایف ایک مالیاتی ادارہ ہے چونکہ ایک ایسا ملک ان سے قرض خواہ ہے جہاں کی حکومت اور مضبوط و اکثریت رکھنے والی حزب اختلاف کے درمیان کشمکش جاری ہے اور ملک سیاسی و حکومتی بحران کا شکار ہے ایسے میں عالمی مالیاتی ادارے کے لئے قرض دینا اور اس کی واپسی کا سوال اہمیت کا حامل ہے اسے ملکی معاملات میں مداخلت قرار دینے کی گنجائش ہے لیکن اگر دوسرے نقطہ نظر سے جائزہ لیا جائے تو یہ ہر مالیاتی ادارے کا طریقہ کار ہے کہ وہ قرض دیتے وقت قرض خواہ کی حیثیت اور قرضے کی واپسی کے امکانات کاضرور جائزہ لیتا ہے اور اس کے بعد ہی قرض جاری کرتا ہے اس سے بھی اگر صرف نظر کیا جائے تو پھر اس کی تصویر کشی کے لئے چند ایک محاورے موجود ہیں۔ملکی معیشت اور مالیاتی صورتحال کسی سے پوشیدہ نہیں۔پچھلے تین سالوں سے وفاقی پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کے حجم میں مسلسل کمی پاکستان کے مالی اور اقتصادی بحران کی ایک اور علامت ہے۔ نئے سرکاری اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت نے وفاقی بنیادی ڈھانچے کی ترقی کو 353 بلین روپے تک نچوڑا ہے جو کہ جی ڈی پی کے 0.4 فیصد سے بھی کم ہے جاری مالی سال کے پہلے 10 مہینوں میں اپریل سے لے کر، نقد کی کمی کا شکار مرکز آئی ایم ایف کے ہدف کو پورا کرنے کے لیے اپنے اخراجات میں کمی کرتا ہے۔ اس سال جی ڈی پی کے 0.4 فیصد کا بنیادی بجٹ سرپلس پیدا کرناہے۔زیر جائزہ مدت کے لیے کل اخراجات 940ارب روپے کے سالانہ پی ایس ڈی پی کا38فیصد مختص ہے،جو ایک سال پہلے کی اسی مدت کے دوران ترقیاتی منصوبوں پر خرچ کیے گئے اخراجات سے 12.3 فیصد کم ہے۔صورتحال یہ ہو گئی ہے کہ حکومت کے پاس نئے منصوبوں کے لیے، یا یہاں تک کہ موجودہ منصوبوں کو برقرار رکھنے کے لیے کافی رقم نہیں ہے جس سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ پاکستان کے شہری ملک کے بدترین معاشی بحران سے بچنے کے لیے یہ رقم ادا کرنے پر مجبور ہیں۔ طویل مالی پریشانیوں کا مطلب یہ بھی ہے کہ 2022 کے تباہ کن سیلاب سے متاثر ہونے والے لاکھوں افراد میں سے زیادہ تر اب بھی بحالی کے منتظر ہیں۔ایک میڈیا رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ پاکستان اخراجات کو تقریبا 163 ارب روپے تک کم کر کے 183 بلین روپے تک لے جائے تاکہ ایک اہم ریونیو شارٹ فال کو پورا کیا جا سکے کیونکہ فنڈ اس سال پرائمری بجٹ سرپلس حاصل کرنے کے مقصد پر رعایت دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ حکومت کے پاس اس معاملے میں شاید ہی کوئی چارہ ہو، جب تک کہ وہ بنیادی سرپلس کے لیے آئی ایم ایف کی شرائط کی خلاف ورزی کرنے کے لیے تیار نہ ہو – جو کہ حکومت کی قرض لینے کی ضروریات کا اشارہ ہے – جس پر حال ہی میں اختتام پذیر مختصر مدت کے3 بلین ڈالرکے اسٹینڈ بائی بندوبست کے تحت اتفاق کیا گیا تھا۔جس کے بغیر طویل اور بڑے بیل آئوٹ حاصل کرنے کے امکانات خطرے میں پڑ جائیں گے۔ایک اور رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ، نئے بیل آئوٹ پر بات چیت کے قریب آنے کے ساتھ، پاکستان نے آئی ایم ایف سے وعدہ کیا ہے کہ وہ اگلے مالی سال میں جی ڈی پی کے 1 فیصد کے برابر بنیادی سرپلس کا ہدف رکھے گا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ فنڈ نے پہلے ہی حکومت سے کہا ہے کہ وہ 1.7 ٹریلین روپے کا اضافی ریونیو اکٹھا کرے جو اس کے ترقیاتی اخراجات پر مشتمل ہو، اور پٹرولیم لیوی کے ہدف کو 24 فیصد سے زیادہ بڑھا کر اگلے سال تقریبا 1.1 ٹریلین روپے کر دے۔ ملک نے حالیہ مہینوں میں ایک طرح کا معاشی استحکام حاصل کیا ہے اور معاشی بنیادوں نے بہتری کے کچھ آثار دکھائے ہیں۔لیکن یہ وقتی ہے اس وقت کوئی بھی خطرہ مول نہیں لیا جا سکتاظاہر ہے ا ن حالات میں سوائے اس کے کوئی چارہ نہیں کہ آئی ایم ایف کی شرائط اور تبصروں دونوں کے آگے سر تسلیم خم ہی کیا جائے جہاں تک سیاسی بحران اور انتخابی نتائج سے پیدا شدہ صورتحال کا تعلق ہے اب اس کا حوالہ مزید شدت سے سامنے آتا رہے گا جس سے بچنے کا واحد حل یہی نظر آتا ہے کہ اس تنازعے کو طے کیا جائے۔

مزید پڑھیں:  ہوش کے ناخن