تنگ دامنی پہ شیخ ہماری نہ جائیو

مرزا غالب نے شرم وحیا سے عاری لوگوں کے حوالے سے خود اپنے آپ کو سامنے رکھتے ہوئے دوسروں کوطنز وتشیع کا نشانہ بنانے کی کوشش کی تھی اور کہا تھا
کعبے کس منہ سے جائو گے غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی
دراصل شرم و حیا کی رخصتی کے حوالے سے علامہ اقبال کا ایک مصرعہ مزید وضاحت کرتا دکھائی دیتا ہے جو کچھ یوں ہے کہ
حمیت نام ہے جس کا گئی تیمور کے گھر سے
مرزا غالب نسلاً ترک تھے اور ان کا شجرہ نسب تیمور اور چنگیز خان سے جا کر ملتا تھا اس لئے انہوں نے اپنی بشری کمزوریوں پر خود تنقید کرتے ہوئے کعبے کی زیارت کو اپنے لئے باعث ندامت قراردیتے ہوئے جب محولہ بالا شعر کہا تو اس سے ان کا اللہ کے حضور معافی طلب کرنے کا بیانیہ واضح ہوتا ہے گویا وہ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ آخر تم کس برتے پر کعبہ جیسی مقدس مقام پرجانے کا سوچ رہے ہو ، بقول خواجہ آصف”کچھ شرم ہوتی ہے کچھ حیا ہوتی ہے ” لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں ”شرم و حیا” سے کوئی سروکار نہیں ہوتا اس حوالے سے کچھ بیانات کو سامنے رکھیں گے اور ان میں سے ”تلخ حقائق” الگ کرنے کی کوشش بالکل اسی طرزپر کریں جسے کہ دریائوں کے پا نی کو چھان کر ان میں سونا تلاش کرنے کا عمل کیا جاتا ہے ، تاہم جس پہلی مثال کو ہم آپ کے سامنے رکھنے جارہے ہیں اس حوالے سے ہم ایک عرصے سے اپنے مختلف کالموں میں اکثر و بیشتر اسی کلئے پر روشنی ڈالتے آرہے ہیں جس کی جانب گزشتہ روز ڈی جی آئی ایس پی آر نے حالیہ انتخابات میں ایک سیاسی جماعت کی جانب سے مینڈیٹ کے ضمن میں ”گمراہ کن” دعوئوں کی قلعی کھولتے ہوئے اعداد و شمار کے ذریعے ان دعوئوں کا بھرم چاک کیا تھا اب ہم پہلے اپنے نظریئے کی وضاحت کرنا چاہتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ ملک میں جو بھی سیاسی رہنما اپنی ”عوامی حمایت” کا تذکرہ کرتا ہے تو اس کی زبان پر یہ الفاظ ہوتے ہیں کہ ملک کے 24کروڑ عوام میرے ساتھ ہیں (یہاں کسی ایک یا خاص سیاسی جماعت یا رہنماء کی تحضیص نہیں ہے) حالانکہ ایک تو ملک کی پوری آبادی کسی ایک کی حمایتی ہو ہی نہیں سکتی یعنی اگر کسی ایک لیڈر کے دعوئے کو درست تسلیم کر لیاجائے تو باقی بے چارے کیا کریںگے؟ دوسرا یہ کہ جو غیر جانبدار اور خاموش عوام کی بہت بڑی تعداد موجود ہے انہیں کس کھاتے میں بلکہ کس کے کھاتے میں رکھا جائے؟ اور اہم ترین بات یہ ہے کہ ووٹر تو مقررہ عمر تک پہنچنے والے ہی ہو سکتے ہیں اور انہی کے حوالے سے اپنے بلکہ اپنے اپنے حمایتی ہونے کے دعوئے کئے جا سکتے ہیں لیکن یہاں بھی ہر پارٹی کو حصہ بقدر” ہمت اوست” ہی ملتا ہے اور کوئی پارٹی یہاں بھی سو فیصد حمایت کے دعوے نہیں کر سکتی اس لئے ہم ہمیشہ سیاسی رہنمائوں سے یہی سوال کرتے رہتے ہیں کہ حضور ملک کی پوری 24 کروڑ کی آبادی کے دعوے کس برتے پر کئے جارہے ہیں یعنی 24 کروڑ میں تو وہ بچے بھی شامل ہیں جن کی عمر ووٹر ہونے کی نہیں ہے اور نومولودوں سے لے کر چھوٹی عمر کے بچے بھی ان 24 کروڑ میں شامل ہیں جوحمایت یا مخالفت کے معاملے میں ووٹر کی حیثیت سے اہمیت دینے کو بھی کوئی تیار نہیںہوتا خود انہیں بھی اس بات کی کوئی تمیز نہیں ہوتی اس لئے ملک کی پوری آبادی کی ”حمایت یافتہ” ہونے کے ”سراب دعوے” کیوں کئے جاتے ہیں؟ گویا بقول سید محمد جعفری مرحوم
ایبسٹریکٹ آرٹ کے ملبے سے یہ دولت نکلی
جس کو سمجھے تھے انناس وہ عورت نکلی
چلیں ، واپس موضوع کی طرف آتے ہیں سابق صدر ، جنہوں نے ملکی پارلیمانی تاریخ میں پہلی بار منصب صدارت کی”تذلیل” کاکوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا اور صدر کے عہدے کی روایتی غیر جانبداری کے ہر ، ہر موقع پر دھجیاں بکھیریں اور خود کو تحریک انصاف کا رکن ثابت کرتے ہوئے مخالف سیاسی قائدین پر مبینہ حکومتی مظالم کابھر پور ساتھ دیا بلکہ ان کی تقلید میں خیبر پختونخوا اسمبلی کے سپیکر نے بھی غیر جانبداری کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے پارٹی اجلاس میں شرکت کرکے ”بے شرمی” کے ریکارڈ توڑے ، حیرت کی بات یہ ہے کہ بعض وی لاگرز اور سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ یہ اطلاعات دے رہے ہیں کہ موصوف کو ”پارٹی” کا صدر یا چیئرمین بناتے پر مشاورت ہو رہی ہے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا موصوف سے ایک بار پھر پی ٹی وی پرحملے اور قبضے کی (خدانخواستہ) خبریں دلوانی ہیں؟ اگرچہ ڈی جی آئی ایس پی آر کی گزشتہ دنوں کی پریس کانفرنس کے بعد موصوف جس طرح اچانک فعال ہوکر پارٹی کے بانی سے ملنے جیل جا پہنچے اس حوالے سے جو خبریں ریگولر اور سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہیں ان کے حوالے سے جو تبصرے سامنے آرہے ہیں اور جن میں متضاد دعوئے کئے جارہے ہیں اور ایک دعوے کے مطابق انہوں نے پارٹی کے بانی چیئرمین سے اس مشورے پر مبینہ طور پر سخت ڈانٹ بھی کھالی ہے کہ وہ معافی مانگ کر معاملات کو مثبت رخ موڑنے کی کوشش کریں تاہم ان کی اچانک جیل جا کر ملاقات کے پیچھے ایک اور نظریہ بھی ہے اور وہ یہ کہ جب سے ڈی جی آئی ایس پی آر نے پارٹی کی جا نب سے نو مئی واقعات کی تحقیقات کرنے کے مطالبات کے ساتھ اتفاق کرتے ہوئے تحقیقات 2014ء کے دھرنے اور درمیان کے کئی واقعات کو تحقیقات کے دائرے میں لانے کی بات کی ہے موصوف کو اچانک”پہئے” لگ گئے اور اس کے پیچھے ان کا یہ خوف ہے کہ اگر 2014ء سے تمام واقعات کی تحقیقات شروع کر دی گئیں تو موصوف پی ٹی وی پر قبرضے کی ”خوش خبری” پارٹی چیئرمین تک پہنچانے کے کارنامے”پر” گرم پانیوں” میں آسکتے ہیں بات تو فواد چوہدری کے حوالے سے بھی کی جا سکتی ہے جنہوں نے میاں نواز شریف کی سیاست کے ماضی میں خاتمے کے دعوے کرتے ہوئے ڈھٹائی کی تمام حدود پار کرنے کے بعد اب تازہ بیان میں دعویٰ کیا ہے کہ نواز شریف سیاسی ماحول بہتر بنا سکتے ہیں تاہم کالم کی تنگ دامنی آڑے آرہی ہے اس لئے اس پر تبصرہ پھر سہی۔
تنگ دامنی پہ شیخ ہماری نہ جائیو
دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں

مزید پڑھیں:  صنفی تفریق آخر کیوں ؟