تنگ آمد بجنگ آمد

کشمیر میں بجلی اور آٹے کی قیمتوں میں کمی کے لئے جو احتجاج کیاگیا اس کاکشمیر کی ریاستی اور پاکستان کی وفاقی حکومت کے لئے مشکلات کا باعث ہونا فطری امر ہے صورتحال یہ ہے کہ گزشتہ ایک سال سے جاری اس احتجاجی مہم کو کشمیر کی حکومت نے پہلے نظر انداز کیا اور وفاقی حکومت کی طرف سے بھی کوئی توجہ نہیں دی گئی۔لیکن جب مظاہرین ریاست کے دارالحکومت مظفرآباد کی طرف بڑھنا شروع ہوئے تو وفاقی حکومت نے اچانک23ارب روپے کے پیکیج کا اعلان کر دیا جب کہ ریاست جموں کشمیر حکومت نے مظاہرین کے مطالبے پر بجلی کے نرخوں میں کمی کر دی۔ انتظامیہ نے یہ مسئلہ حل کرنے میں تاخیر سے کام لے کر اس کو بڑھا دیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان کو اب حالات سنبھالنے میں مشکل پیش آئی۔صرف آزاد کشمیر کے عوام ہی مسائل اور مشکلات کا شکار نہیں اور نہ ہی صرف وہاں کے عوام کے ساتھ حکومتی رویہ امتیازی اور لاپرواہی کا ہے بلکہ پورے ملک میں خواہ جہاں تحریک انصاف کی حکومت ہو مسلم لیگ نون حکمران ہو یا پھر پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت ہو یا پھر بلوچستان کی ملغوبہ حکومت حکمرانوں کے رویوں میں زیادہ فرق نہیں اور عوام بھی محولہ قسم ہی کے مسائل کا بری طرح شکار ہیںفرق صرف یہ ہے کہ عوام کا پارہ انتہا کو ضرور ہے صرف آزاد کشمیر کے عوام کی طرح ابھی وہ صورتحال کو مزید خراب کرنے سے احتراز کر رہے ہیں لیکن تابکے کسی بھی صوبے میں خواہ وہ پختونخوا ہو یا کوئی اور بعید نہیں کہ عوام آزاد کشمیرکے عوام کا سارویہ اختیار کریں حکومت نے وہاں کے عوامی مطالبات تسلیم کرکے نرخوں میں کمی کرکے گویا دوسرے صوبوں کے عوام کوبھی راستہ دکھا دیا ہے سمجھ سے بالاتر امر یہ ہے کہ حکومت قیمت کم کرکے بجلی کی پیداواری لاگت اور اس پر عاید ہونے والے ٹیکسز کی کمی کیسے پوری کرے گی نیز ملک بھرمیں اگر اس طرح کا مطالبہ کیاگیا تو حکومت کے پاس عوام کومطمئن کرنے کا کیا جواز ہو گا نیز حکومت آزاد کشمیر میں یہ رعایت کب تک برقرار رکھ سکے گی اصل مسئلہ ہی یہ ہے کہ لوگوں کے معاشی بہت بڑھ چکے ہیں لیکن حکومت کو اس کا کوئی احساس نہیں جس سے لاوا کسی بھی وقت پھٹنے کا خدشہ ہر وقت رہتا ہے ۔ آزاد کشمیر کے حالات او رصورتحال بعینہ پورے ملک پر منطبق ہوتے ہیں اور پورے ملک کے عوام کے حالات میں نہ تو زیادہ فرق ہے اور نہ ہی مسائل و مشکلات اور صورتحال مختلف ہے وزیر اعظم شہباز شریف نے مظاہرین کے بہت سے مطالبات جیسے کہ گندم کے آٹے کی سبسڈی میں اضافہ اور بجلی کے نرخوں پر نظر ثانی کرنے کے ساتھ ساتھ اے جے کے کو23ارب روپے کی منتقلی کا اعلان کرکے عدم اطمینان کو دور کرنے کی کوشش ضرور ہے کی تاہم اصل مسئلہ اس کو جاری رکھنا اور مسائل کاپائیدار حل تلاش کرنا ہے ۔ آزاد جموں و کشمیر کے لوگ بنیادی طور پر مہنگائی کے ساتھ ساتھ گندم کے آٹے اور بجلی کے نرخوں کے مسائل کی وجہ سے سڑکوں پر نکل آئے تھے۔ مزید برآں، بہت سے مظاہرین یہ محسوس کرتے ہیں کہ آزاد جموں و کشمیر کی حکومت بہت زیادہ ہے، اور چھوٹے علاقے کو اپنے معاملات چلانے کے لئے وزرا اور بیوروکریٹس کی فوج کی ضرورت نہیں ہے۔ ان کا خیال ہے کہ آزاد جموں و کشمیر کی حکومت چلانے کے اخراجات کم کرنے کے بعد ترقی کے لئے بہت کم فنڈز رہ گئے ہیں۔ دریں اثنا، مقامی قانون سازوں پر بھی تنقید کی جا رہی ہے، جن میں سے بہت سے مبصرین کا کہنا ہے کہ منتخب ہونے کے بعد شاذ و نادر ہی اپنے حلقوں کا دورہ کرتے ہیں۔یہ وہ سارے مسائل اور مشکلات ہیں جس کے باعث عوام احتجاج پر مجبور ہوئی دیکھنا یہ ہے کہ حکومتی اقدامات طویل مدت میں عوام کو مطمئن کرتے ہیں یا نہیں۔احتجاج کا مرکز آزاد جموں و کشمیر کی انتظامیہ کی جانب سے خدمات کی فراہمی میں کمی کے ساتھ ساتھ اسلام آباد کی بھی صوبوں کے مسائل کے حل اور عوام کو مشکلات سے نکالنے کے ضمن میںواضح بے حسی دکھائی دیتی ہے۔غور کریں تو خیبر پختونخوا میں بھی غالب عوام کی یہی سوچ ہے یہاں کے عوام کے بھی مرکز کے حوالے سے کم و بیش یہی خیالات ہیںافسوس کی بات یہ ہے کہ ملک بھر میں یہ معمول ہے کہ مسائل کو صرف اس وقت حل کیا جائے جب وہ ایک مکمل بحران کی طرف لپکے ہوں۔ گلگت بلتستان میں صرف چند ماہ قبل مقامی آبادی نے اسی طرز پر احتجاجی مظاہرے کیے تھے۔ آزاد جموں و کشمیر کے وزیراعظم نے کہا کہ گندم کے آٹے اور بجلی کے نرخوں کے حوالے سے کی گئی تبدیلیاں”مستقل”انتظامات ہیں۔ جملہ حالات کے تناظر میں اس نتیجے پر پہنچا جا سکتا ہے کہ حکومت خواہ وہ وفاقی ہویا صوبائی ان کو چاہئے کہ وہ اپنے اخراجات کو کم کریں اور لوگوں کی فلاح و بہبود کے لئے کافی فنڈز مختص کرتے ہوئے صرف ضروری چیزوں پر توجہ مرکوز کی جائے۔ قانون سازوں اور وزراء کے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے آپ کو حلقہ بندیوں کے لئے دستیاب مسائل کے حل کے لئے فراہم کریں۔ گڈ گورننس کا تقاضہ ہے کہ اسلام آباد اور مظفرآباد دونوں کی انتظامیہ ہوش کے ناخن لے اور آزاد جموں و کشمیر کے جائز مسائل کو جمہوری انداز میں حل کرے۔ملک کے ایک حصے میں عوام کی سوچ کو ملک بھر کے عوام کی سوچ قرار دینے کی پوری گنجائش ہے اور اس سے عوام کی نباضی بھی ہوتی ہے بہتر ہوگا کہ نقارہ کی آواز سن لی جائے عوامی مطالبات پرکان دھرے جائیں اور ایسے لاپرواہی و تاخیر پر مبنی حالات کی طرف صورتحال کو دھکیلنے سے گریز کیا جائے جسے سنبھالنا مشکل ہو جائے ۔ خیبر پختونخوا کے جوحقوق و سائل وفاق کے ذمے زیر التواء پڑے ہیں کم از کم ان کی ادائیگی کا سلسلہ شروع کیا جائے بصورت دیگرخیبر پختونخوا سے بھی مرکز کی طرف عوام کی اس طرح کی مراجعت ناممکن نہیں۔

مزید پڑھیں:  صنفی تفریق آخر کیوں ؟