بزرگوں اور ضعیفوں کی نفسیاتی اذیت

میرے ایک دوست بیرون مُلک رہتے ہیں ، چار سال قبل وہ اپنے چچا کے ہمراہ مجھ سے ملے ۔ اُن کے یہ بزرگ یہاں اولڈ ہوم میں قیام پذیر تھے جنہیں ملنے وہ سال بعد آیا کرتے جبکہ چچا کی اپنی اکلوتی بیٹی کسی دوسرے شہر میں رہتی اور تین چار ماہ کے بعد والد کو ملنے آیا کرتی ۔ مَیں نے باتوں باتوں میں اولڈ ہوم اور وہاں کی گزر بسر کے بارے پوچھا تو اُس ستر سالہ شخص نے اولڈ ہوم کی خوب تعریف کی کہ کھانے پینے اور آرام کی ہر آسائش میسر ہے مگر بڑی دل شکستگی سے کہا کہ صرف رشتوں کی قربت سے محروم ہوں ۔ چند روز ہوئے ، دوست کا پیغام ملا کہ اولڈ ہوم والے چچا وفات پا گئے ہیں ۔ اس خبر سے رنجیدہ ہوا ، یہ سوچنے لگا کہ اب اوسط عمر میں اضافہ سے عمر رسیدہ لوگوں کی تعداد بڑھ رہی ہے جبکہ ضعیفوں کی دیکھ بھال کا سلسلہ پہلے سے کہیں زیادہ توجہ طلب ہو گیا ہے ۔ یہ امر قابل ستائش ہے کہ ہمارے ہاں لوگ فلاحی کاموں میں بھر پور حصہ لیتے ہیں اور حالات کے مارے یا مجبور بوڑھوں کے لیے اقامت گاہوں میں سہولتیں بھی مہیا کی جاتی ہیں ۔ لیکن یہ سب اولڈ ہومزان گھروں کا نفسیاتی اور روحانی بدل ہر گز نہیں جہاں دادا ،دادی ، ماں باپ اور بچے ایک ساتھ رہتے ہوں اور انسانی رشتوں کے بندھن میں جڑے ہوئے ہوں ۔
ایسی اقامت گاہیں اور ادارے کسی طور پہ بھی خاندانی رشتوں کی جگہ نہیں لے سکتے ، بے شک بے گھر ضعیفوں کے لیے یہ ایک سماجی تحفظ ہے مگر ذہنی کوفت کے سبب انتہائی ترقی یافتہ فلاحی نظام کی حامل اقوام میں بھی یہاں بوڑھوں نے متعدد بار خود کشی کا ارتکاب کیا ہے ۔ انسانوں کو اس نفسیاتی اذیت سے کیسے بچایا جائے جسے وہ خود کو سماجی اعتبار سے فضول قرار دئیے جانے پر محسوس کرتے ہیں ۔ یہ بات ان لوگوں کے لیے بھی درست ہے جو مدت ملازمت پوری ہونے کے بعد گھر بیٹھ جاتے ہیں ۔ میرے نزدیک عمر رسیدہ لوگوں کو زندہ رہنے کا احساس دلانا سب سے زیادہ اہم ہے ، اُنہیں معاشرے کے حقائق اور اپنوں سے الگ کر کے زندہ رہنے کا احساس نہیں دلایا جا سکتا کیونکہ سماجی مشاغل میں شرکت کا احساس ہی زندہ رہنے کی آرزو کو تقویت دیتا ہے ۔ ہمیں معاشرے میں ان کی اہمیت کو نظر انداز کرنے اور با مقصد معاملات سے محروم رکھنے کی بجائے اُنہیںیہ احساس دلانے میں مدد کرنی چاہیے کہ وہ معاشرے کے لیے نا گزیر ہیں ۔ یہ بھی دیکھنے مین آیا ہے کہ عمر رسیدہ لوگ کئی اعتبار سے مفید ثابت ہوتے ہیں ، اول وہ کسی تفویض کردہ کام کو زیادہ لگن اور ذمہ داری سے انجام دیتے ہیں ۔ دوسرے یہ کہ وہ جسمانی اعتبار سے ضرور کمزور ہوتے ہیں لیکن اُنہوں نے روحانی اور ذہنی لحاظ سے ہمیشہ اپنی زندگی کے تجربات کا اچھا استعمال کیا ہے اور معاشرے کے لیے بہتر کام کیے ہیں ۔ موثر عملی زندگی کی شرح تناسب میں اضافہ کسی بھی معاشرے کے لیے مفید ہو سکتا ہے لیکن ہمارے ہاں سرکاری اور معاشرتی رسم بڑھاپے کے مسائل کو زیادہ کر رہی ہے ۔ بہر کیف یہ مسّلہ کسی ایسے بوڑھے کے لیے نہیں ہوتا جو سماجی اعتبار سے کسی مفید پیشہ سے وابستہ ہو ، جس میں صرف ذہنی عمل کی ضرورت ہوتی ہے ۔ کسی بھی شخص کے لیے آخر عمر تک اپنی ذہنی صلاحیتوں کو بیدار رکھنا خوش قسمتی کی بات ہے ۔ اب بھی ہمارے ہاں بیشتر لوگ جسمانی طور پہ کام کرنے والے ہیں جنہیں جسمانی مسائل یا ناکار کردگی کی وجہ سے کام چھوڑنا پڑتا ہے ۔ اورپھر یہی دیکھا گیا کہ ان کے پاس سالہا سال کی بے معنی اور بے مصرف زندگی کے تاریک امکانات اور نفسیاتی اذیت کے سوا کچھ نہیں رہتا ۔ یہ المیہ اس کے علاوہ ہے ، جن ضعیفوں کی اولاد اُنہیں خانگی امور یا معاشی مسائل کی وجہ سے اولڈ ہوم چھوڑ آتی ہے ۔ دیہی زندگی میں یہ حادثات کم ہیں کہ وہ بڑحاپے میں بھی خاندانی امور اور دیگر گھریلو معاملات میں برابر حصہ لیتا ہے ۔ ان کے گھر بھی اتنے کشادہ ہیں کہ سب کے لیے رہنے کو کمرے ہوتے ہیں ۔ شہری زندگی کا چلن مختلف ہے ، اس نے ایک خاندان کی تین نسلوں کو بانٹ رکھا ہے ، اگر دادا یا دادی زندہ ہے تو وہ اپنے بچوں کے ساتھ نہیں رہتے ۔ فلیٹ اور چھوٹے مکانوں میں اپنے اور بچوں کے علاوہ ماں باپ کے لیے رہنے کو کمرے نہیں ہوتے ۔ معاشی تنگی کی وجہ سے اگر اولاد پیسے کمانے وطن سے باہر چلی جائے تو پھر اُن کے بزرگوں اور ضعیفوں کی ایک اکثریت کا ٹھکانہ یہی اقامت گاہیں ہیں جہاں برسوں بعد اُنہیں بیٹے اور بیٹیاں ملنے آتی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ماں باپ کے حقوق کے لیے لفظ احسان اختیار فرمایا ہے ، جس کے معنی حسن ِ سلوک کے ہیں ۔ وہ ہر اچھے برتاؤ کے مستحق ہیں بلکہ اُن کے حقوق کی اصل بنیاد والدین کا بڑھاپا اور کمزوری ہے ،جس طرح اُنہوں نے بچوں پر رحم کھایا اور پالا پوسا ۔ آج وہ کمزور ہیں تو ہمین اُن کے ساتھ مہربانی کا برتاؤ کرنا چاہیے ۔ ہمیں اپنے بزرگوں اور ضعیفوں کی صلاحیتوں سے کام لینا چاہیے ، ان کے کام کی حوصلہ افزائی ہو اور با مقصد کام کے لیے مواقع فراہم کریں تاکہ سماجی زندگی میں وہ فعال رہیں ۔ اُن کی نگہداشت سے متعلق سہولتیں مہیا کرنی ہوں گی کہ وہ کسی نفسیاتی اذیت کا شکار نہ ہوں ۔

مزید پڑھیں:  صنفی تفریق آخر کیوں ؟