اس طرح سے لوڈ شیڈنگ ختم ہوگی؟

وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے صوبے میں لوڈشیڈنگ کم نہ کرنے پر پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی کا کنٹرول لینے اورپیسکو کا انتظام بھی سنبھالنے کی دھمکی دی ہے واضح رہے کہ خیبر پختونخوا میں گرمی کی شدت بڑھتے ہی لوڈشیڈنگ میں بھی اضافہ ہوگیا ہے کئی علاقوں میں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ 20گھنٹے بھی تجاوز کرگیا ہے جبکہ گزشتہ روز وزیرا علیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کے حلقے کی خواتین نے ڈیرہ اسماعیل خان میں لوڈشیڈنگ کے خلاف بڑا احتجاجی مظاہرہ بھی کیا ہے۔صوبے میں بجلی چوری کی روک تھام پر اختلافات پر اظہار خیال کرتے ہوئے انہی کالموں میں ہم قبل ازوقت اس امر کی نشاندہی کر چکے ہیں کہ محاذ آرائی کے ممکنہ نتائج ”جوابی اقدامات”کیا ہوسکتے ہیں بہرحال اس سے قطع نظر اگر وزیر اعلیٰ کے جذباتی ویڈیو بیان کا جائزہ لیا جائے تو ان کی دھمکی پرمبنی حکمت عملی کے موثر ہونے اور اس پر عملدرآمد کاسوال اٹھتا ہے پیسکو بجلی کی تقسیم کار کمپنی ہے کمپنی کو جتنی بجلی ملے گی وہ اس کی تقسیم ہی کا انتظام کر سکتی ہے ہمارے تئیں اصل مسئلہ تقسیم اور لوڈ شیڈنگ کے شیڈول کا نہیں اگر اسے ہی مسئلہ قرار دیا جائے پھر تو شیڈول مرتب کرکے اس مسئلے کا حل نکالا جا سکتا ہے لیکن شاید مسئلہ اس سے بڑھ کر ہے ہمارے تئیں اصل مسئلہ تقسیم کا نہیں بلکہ ملنے والی بجلی کا ہے اس ضمن میں تحریک انصاف کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کے دور میں زیادہ موثر اور اصولی و دستور و قانون کے عین مطابق ایک ایسا آسان اور اخلاقی طریقہ کار اختیار کیاگیا تھا جس کے بعد صورتحال میں بہتری آئی تھی پرویز خٹک نے نہایت سادے طریقے سے روزانہ کی بنیاد پر خیبر پختونخوا کے لئے مختص بجلی کا کوٹہ اور ملنے والی بجلی کے اعداد و شمار سے عوام کو آگاہ کرنے کا سلسلہ شروع کیا تھا روزانہ کی بنیاد پر عوام اور میڈیا کو بتایا جاتا تھا کہ صوبے کے کوٹے سے کتنی کم بجلی دی گئی وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا اپنی حکمت عملی میں اگر اس قابل قبول طریقے کو بھی شامل کریں تو کم از کم عوام کو یہ تو علم ہوگا کہ اصل میں مسئلہ کیا ہے اور ان سے ہونے والی ناا نصافی کا ذمہ دار کون ہے بہتر ہوگاکہ اس ضمن میں جذباتیت کا مظاہرہ کرنے کی بجائے مثانت کے ساتھ یہ مسئلہ اٹھایا جائے وزیر اعلیٰ بجلی کی طلب رسد کے مرکزی نظام میں شاید مداخلت نہ کر سکیں لیکن اگر وہ پیسکو کے افسران کی فی گرین میٹر ساٹھ ہزار روپے رشوت کی روک تھام کرکے سولر لگانے والوں کی حوصلہ افائی کریں اور شمسی نظام کے استعمال میں اضافے کے لئے صوبائی سطح کے اقدامات تلاش کئے جائیں تو طلب ورسدکے توازن میں بہتری آنے سے کچھ افاقہ ہوگا علاوہ ازیں جن سینکڑوں چھوٹے پن بجلی گھروں کا سابق دور میں فخر یہ اعلان کیا گیا تھا ان کی تکمیل پر توجہ دی جائے تو یہ ایک قومی خدمت ہو گی۔

مزید پڑھیں:  امریکہ بھارت شکر رنجی اور پاکستان